ادھورے خواب اور عید مبارک


سنتے ہیں کہ خواب ادھورے سہی لیکن خواب سہارے توہیں! آئیے ایسے ہی چند ادھورے خوابوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ میرے ہی ادھورے خواب ہیں کیونکہ مجھے کسی کی ذاتی زندگی سے کیا۔ 

خبر رساں ادارہ تسنیم: عید مبارک! یہ دو ایسے الفاظ ہیں جنہیں کہنے کے لیے ہم سارا سال انتظار کرتے ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اس غریب، مجبور، لاچار، اور سفید پوش باپ پر یہ الفاظ کتنے بھاری ہوتے ہیں جو دو وقت کی روٹی اپنے بچوں کو نہیں دے پاتا اوروہ فاقوں کا مارا خاندان رمضان المبارک میں فخر سے تمام دنیا کو بتاتا پھرتا ہوتا ہے کہ آج اس کا روزہ ہے! اب جبکہ رمضان المبارک اپنی تمام برکتیں ہمیں دینے کے بعد ہم سے رخصت ہو گیا اور آج ہم عید کا تہوار منا رہے ہیں۔

 ایسا ہی ایک بے چارا نہ جانے کیوں اپنی آنکھوں میں مایوسی لیے عید گاہ سے باہر آ رہا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے نئے جوتے اور نئے کپڑے نہیں لے سکا تھا۔ میں چاہ کر بھی اسکی مایوسی کم نہیں کر سکتا تھا۔ کچھ رقم تو اسے دے دی لیکن چونکہ تمام مارکیٹیں عید کے روز بند ہوتی ہیں لہذا اسکی مایوسی کا مداوا بالکل بھی ممکن نہیں تھا۔ ایسے ہی سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ میرے اردگرد بستے ہیں جن کے لیے ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ایسے لوگوں کے خواب پورے کرنے کے لیے ہمیں انکھیں پڑھنے کا فن سیکھنا ہو گا کیونکہ ایسے سفید پوش لوگ نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنا دکھ کسی کو بتانا اپنی توہین تصور کرتے ہیں ۔   رات میں اسکے سیٹھ کے پاس بیٹھا تھا تو وہ اپنی فیاضی اور رحمدلی کے قصوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا لیکن حقیقت ہمیشہ زبانی جمع خرچ سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ خیرات دینا بہت آسان ہوتا ہے کہ ایک بار کچھ رقم دی اور آگے بڑھ گئے لیکن کسی کا حق ادا کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے اور اس سے بھی زیادہ مشکل حق دار کے حق سے کچھ بڑھ کر ادا کرنا ہوتا ہے تاکہ عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور فلاحی معاشرہ کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ 
ایک اور صحافتی ادارہ کے سیٹھ صاحب بتا رہے تھے کہ انہیں کاروبار میں بہت زیادہ نقصان ہو گیا ہے لہذا وہ پانچ ماہ سے عملہ کو تنخواہیں ادا نہیں کر پارہے ۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد خود ہی ارشاد فرمانے لگے کہ بیٹے کی فرمائش ہے کہ عید پر نئی گاڑی بطور عیدی لینی ہے لہذا اسکی فرمائش فوری طور پر پوری کر دی ہے! ظاہر ہے سینکڑوں گھروں کی خوشیوں کی اپنے حقیقی بیٹے کی خوشی کے آگے کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔ راقم نے حساب کتاب لگایا اور معلوم ہوا کہ جتنے کی گاڑی بیٹے کے لیئے بطور عیدی خریدی گئی اتنے میں تمام عملہ کو نہ صرف تنخواہیں ادا کی جا سکتی تھیں بلکہ ایک ایک ماہ کی تنخواہ بطور بونس بھی دی جاسکتی تھی۔ 

لیکن وہشاید یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ میرا خواب دنیا کی ہر قیمتی شے سے زیادہ قیمتی ہے خواہ اسکے لیے مجھے کتنے ہی دل کیوں نہ توڑنے پڑیں ، کتنی ہی حسرتوں کا قتل کیوں نہ کرنا پڑے، کتنے ہی خواب چکنا چور کیوں نہ کرنا پڑیں ۔ 

میرا ادھورا خواب ہے کہ میرے پیارے دیس پاکستان میں ہر سو خوشیوں کے اجالے ہوں ، ایک فلاحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہو، ہر پاکستانی کی مشکلات ختم ہو جائیں اور حقیقی خوشی کے ساتھ عید منانے میں کامیاب ہو سکے، برابری کی بنیاد پر مواقع میسر ہوں اور استحصال کا نظام ختم ہو جائے۔  بروزعید کوئی آنکھ پرنم نہ ہو، کوئی ذہن پریشان نہ ہو ، کوئی دل بے تاب نہ ہو ، کوئ زبان سوالی نہ ہو ، اور کئی ہاتھ محتاج نہ ہو ۔ آپ کیا اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس باپ کے لیے دن رات محنت کرنے کے باوجود اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے کی استطاعت نہیں ہوتی اسکے لیے یہ دن عید نہیں قیامت صغرا سے کم نہیں ہوتا۔ شاید اسی دکھ کا احساس کرتے ہوئے ایک سیٹھ صاحب کے عید مبارک کے پیغام کے جواب میں لکھ دیا
 " غریبوں کے پیسے مار کر انکی خوشیاں چھیننے والوں کی جانب سے عید مبارک کا پیغام زخموں پر نمک چھڑکنے کے متراف ہے! اللہ آپکو ہدایت دے! عید تو امیروں کی ہوتی ہے جناب! آپکو مبارک ہو!"

تحریروتحقیق : مسعودچوہدری