تجزیہ | انصاف یا سیاسی انتقام؛ عدلیہ کی جانب سے ن لیگ کے اہم مہروں کی مات


سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ ایک سال کے دوران نواز پارٹی کا کرپشن کے الزام میں شیرازہ بکھیر دیا ہے تاہم یہ سخت رویہ بعض شکوک و شبہات کا باعث بنا ہے جن کے جوابات دینا بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کو ارسال کئے گئے کالم میں "حسام کیان مقدم" نے لکھا ہے کہ اگرچہ پاکستان کے انتخابات میں صرف تین ہی دن رہتے ہیں، سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک حیران کن اقدام کرتے ہوئے ن لیگ کے اور اہم مہرے "حنیف عباسی" کو ہمیشہ کیلئے راستے سے ہٹا دیا ہے جس سے اس سوال کو تقویت ملی ہے کہ "عدلیہ کی جانب سے مسلم لیگ ن کیخلاف سخت اقدامات کی وجہ کیا ہے؟"

فطرتی طور پر ہر انسان انتخابات سے قبل اتنے سخت اقدامات کے اصل سبب تک پہنچ سکتا ہے کہ پہلے سے طے شدہ ایک منصوبے پر عمل کیا جارہا ہے جس کے تحت ن لیگ کو منظر عام سے ہٹایا جارہا ہے کیونکہ اگر حقیقت بالکل اس کے برعکس ہوتی تو مختلف حلقوں کی جانب سے انتخابات سے قبل اہم مہروں کو راستے سے ہٹانے پر رد عمل ظاہر کیا جاتا لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ کسی بھی جگہ سے کسی قسم کا اعتراض سامنے نہیں آرہا۔

اس مسئلے کو اس لئے بھی بہتر سمجھا جاسکتا ہے کہ عدلیہ نے دو ماہ قبل ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد منع کردیا تھا تاکہ کوئی بھی جماعت انتخابات سے قبل عوام کے افکار پر اثرانداز نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کا اجراء عوام کے اذہان پر زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں یا کسی پارٹی کے اصلی مہروں کو کرپشن کے الزام میں راستے سے ہٹانا زیادہ موثر ہے؟

اب اس ضمن میں دیگر حقائق کا ذکر بھی لازمی ہے کہ عدلیہ کی جانب سے ن لیگ کیساتھ سخت رویے کی دلیل کچھ اور ہو اور آپ کو بھی اس نتیجے پر پہنچا دے کہ جو رویہ پاکستانی عدلیہ نے اپنا رکھا ہے وہ اس ملک کی عوام اور جمہوریت کیلئے فائدہ مند ہے۔

پاکستانی عوام کے 70 سال کے دوران سیاسی استحکام کہ جو ان کی سلامتی اور رفاہ عامہ کا سبب بنتا ہے، تاحال مشاہدہ نہیں کیا ہے اور کرپشن، ریاستی ادارے، سیاست اور مختلف طبقات کے مابین گوناگوں اختلافات عوام کے غم و غصے میں اضافے کا سبب بنے ہیں جو ایک سنجیدہ چیلنج ہے اور جو کسی بھی وقت ایک اہم خطرے میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے جبکہ مکمل طور پر سیاسی بحران اور ماضی کے کرپٹ مہروں کو حذف کرنے کے علاوہ بھی چارہ جوئی موجود ہے اور ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ ان میں سے اکثر افراد نواز شریف کی طاقتور پارٹی سے منسلک ہیں اور جب تک عدلیہ اپنی کلہاڑی سے اس درخت کے تنے کو کاٹ نہ دیتی تو صورتحال کے بہتر ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا، سو اب اس سخت اور سنجیدہ رویے کے سبب پاکستانیوں کیلئے امید کی شمع روشن ہوگئی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی فوج ملک میں بے پناہ طاقت رکھتی ہے اور اگر اس کو ایک قدرت مطلق نہ سمجھا جائے تو اس کا اعتراف ضرور کرنا ہوگا کہ فوج مملکت خداداد کا ایک طاقتور بازو ہے، دوسرا موضوع یہ ہے کہ فوج بھی عدلیہ کی جانب سے ہونے والے فیصلوں کی براہ راست مداخلت نہ کرتے ہوئے حمایت کررہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ پاک فوج عدلیہ کے تمام تر فیصلوں کو بہ روی چشم قبول کررہی ہے۔ اس حوالے سے مناسب تجزیہ یہ ہوگا کہ فوج اس بات کی طرف متوجہ ہے کہ براہ راست مداخلت اور مارشل لاء کی صورت میں ریاست کو بہت زیادہ مالی نقصان کرنا پڑے گا اور اسی وجہ سے آئین کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہی ہے یعنی قومی سلامتی اور شناخت کی حفاظت کو ترجیح دے رہی ہے تاکہ عدلیہ کی جانب سے ہونے والے اقدامات کے طفیل ملک میں کرپشن کی جڑیں خشک کی جائیں۔ یہ سلسلہ بدستور پاکستانی قوم اور فوج کے فائدے میں شروع ہے۔

پاکستانی کی تازہ ترین صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کی طاقتور سیاسی جماعتوں کی متبادل ایک نئی تشکیل شدہ لیکن طاقتور پارٹی تحریک انصاف ہوسکتی ہے جو اس ملک کے معاشرے بالخصوص جوانوں میں بے حد مقبول ہوچکی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پیپلز پارٹی کی عوام کو امن اور ریلیف دینے میں مسلسل ناکامی عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا سبب بنی ہے دوسرے لفظوں میں پاکستان کی روایتی جماعتیں موجودہ دور کے جوانوں کی ضروریات کو پوری کرنے یا ان کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور ان کو راستے سے ہٹانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود ہی نہیں ہے جبکہ دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری کا کرپشن کے الزام میں ممکنہ ٹرائل بھی اس نظریے کو تقویت بخشتا ہے۔   

ایسی حالت میں عمران خان صورتحال کو کنٹرول کرنے اور امید و نشاط کی شمع جلانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے جیساکہ مملکت خداداد کے اکثر نوجوانوں کو کہ جو اعتراض کر کرکے تھک گئے ہیں، چیئرمین تحریک انصاف کے نعروں سے ایک نئی روح ملی ہے اور وہ عمران خان کو اپنے لئے ایک نئی امید کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر امید و نشاط سے بھرے پوسٹس کا بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جس میں سے اکثر کا کہنا یہ ہے کہ ان کو اپنی قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان پر اعتماد ہے اور ان کی ہدایت و رہنمائی کے تحت اقتصادی و ریاستی کرپشن کیخلاف جنگ میں اترے ہیں تاکہ اپنی آئندہ نسلوں کیلئے ایک روشن مستقبل فراہم کریں۔

ن لیگ کی طویل المدت حکمرانی اور کرپشن کے بے پناہ مقدموں کے پیش نظر عدلیہ اب پاکستانی عوام کی تنہا امید ہے کہ جو ان کی خواہشات کے مطابق کرپٹ حکمرانوں کا محاسبہ کرے اور یہ کام صرف عدلیہ ہی کرسکتی ہے، جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ کسی بھی طاقت سے خوفزدہ نہیں اور وہ ملک میں انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ایک قابل اعتماد طاقت ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے گزشتہ چند عرصے کے دوران یہ ثابت کردیا ہے کہ عدلیہ ایک ایسی مقتدر طاقت ہے کہ جو نہایت چھوٹی سی تحریک چلا کر ن لیگ جیسی مضبوط جماعت کو رام کرسکتی ہے اور اس پارٹی پر عوام کے اعتماد کو نہایت ہی کم عرصے میں ختم کرسکتی ہے۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اے آر وائی کی مانند پاک فوج کے نزدیک سمجھے جانے والے ذرائع ابلاغ نے بھی عمران خان کی حمایت اور ایک نئی حکومت کی تشکیل کیلئے تگ و دو میں حصہ لینا شروع کردیا ہے، بلا شک و شبہ یہ امر بھی پاکستان کی سیاست میں بنیادی تبدیلی لانے کی ایک نشانی ہے۔

ن لیگ کے اہم رہنماوں کی گرفتاری اور مرکزی کمانڈ کی دربدری کے سبب نواز شریف عوام کے اندر اپنی مظلومیت دکھانے اور اس فرصت سے فائدہ اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہا، یہ ن لیگ کا آخری حربہ تھا کہ جس کے تحت وہ اپنے خلاف خطرناک منصوبے سے چھٹکارا حاصل کرسکتا تھا لیکن جیو اینڈ جنگ گروپ جیسے طاقتور میڈیا گروپ بھی اس حوالے سے نواز شریف اور اس کے حامیوں کی کوئی مدد نہ کرسکا۔

  عملی طور پر یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ دکھائی دے رہا ہے کہ جس کے تحت ن لیگ کے رہنماوں کو بہت پہلے سے ہدف بنایا جاچکا ہے اور اس پارٹی کی کمانڈنگ طاقت کو اندرون و بیرون ملک تباہ کردیا ہے حتی انٹرپول کو درمیان میں لاکر نواز پارٹی سے بیرون ملک بھی طاقت چھین لی گئی ہے۔ اس ضمن میں اسحاق ڈار کے معاملے کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

10۔ ایک اور نکتہ جو دنیا کے تمام ممالک کی سلامتی سے جڑا ہوا ہے، یہ ہے کہ اکثر ممالک کے خفیہ اور سیکورٹی ادارے مجرموں کے ہر قسم کے اقدامات سے چشم پوشی کرتے ہیں اور ان کیخلاف شواہد اکٹھا کرتے ہیں اور بعد جب چاہے اور جس طرح چاہے یعنی یا حکمرانی یا سرنگونی، ان شواہد سے استفادہ کرکے ان مجرموں سے کام لیتے ہیں، یہی امر باعث بنا ہے کہ جس کے تحت ن لیگ کیخلاف کرپشن کے تمام شواہد عدلیہ کے حوالے کردئے گئے ہیں اور عوام کے پاس بھی ان پر اعتماد کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

11۔ ان عمران خان اور وہ سب افراد کہ جو کامیابی کے نزدیک ہیں، کو بھی اس نکتے کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ وہ بھی اسی نظام کا حصہ بننے والے ہیں اور اگر اب تک ان کیخلاف کوئی سنگین فائل نہیں بنایا گیا ہے تو حکومت میں آنے کی صورت میں انہیں بہت احتیاط کرنا ہوگی تاکہ ان کی سرنوشت ملک کے ماضی کے حکمرانوں میں تبدیل نہ ہو، ان کے پاس ایک واحد راستہ موجود ہے کہ انتخاباتی کمپین کے دوران قوم سے کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل پیرا ہوں اور اپنے آپ کو ہر قسم کی کرپشن سے پاک رکھیں جو کہ واقعی ایک سخت کام ہے۔

12۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کی غیور، مسلمان اور مثالی قوم کہ جو بے پناہ قربانیوں اور مجاہدت کے بعد اس مقام پر پہنچی ہے اور جس نے ہزاروں کی تعداد میں شہید دئے ہیں، ایک بہترین اور روشن مستقبل کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کی سطح پر ایک دلسوز اور ہمدرد لیڈر کی مستحق ہے جبکہ خداوند متعال نے اس قوم کو بے شمار مادی و معنوی نعمتوں سے نوازا ہے تاکہ وہ ایک بہترین مقام پر پہنچ کر آسمان کی بلندیوں کو چھوم لے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو ایسے پاک دامن اور کارکن رہنماوں ہاتھ میں دیدیں کہ وہ عوام کے ساتھ ساتھ مملکت خداداد کی امیدوں پر پورا اتریں اور اگر یہ امر حقیقت میں تبدیل ہوا تو پاکستان کو ایک ترقی یافتہ، پرامن اور آباد ملک بننے میں کوئی دیر نہیں لگے گا