کہاں بھاشا ڈیم اور کہاں لداخ!


جونہی بھاشا ڈیم کا افتتاح ہوا بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا فوری بیان سامنے آیا کہ ہم دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہیں چونکہ اس ڈیم کی تعمیر سے ہمارے زیرِ انتظام کشمیر اور لداخ کا بڑا حصہ غرقاب ہو جائے گا!!!!!

تسنیم خبررساں ادارہ: بھارت اس وقت شکستوں کےبھنورمیں ہے اوراس کی تمام تر چالبازیاں ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں لداخ میں چین کے ہاتھوں بنی درگت کا سیدھا اثر بھارتیوں کے دماغ پر ہوا تبھی تو وہ اب کشمیر سے آگے بڑھ کر گلگت بلتستان کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہے ہیں جیسے ہی جی بی میں انتخابات کا اعلان ہوا بھارتی اعتراض سامنے آیا پھر جونہی بھاشا ڈیم کا افتتاح ہوا بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا فوری بیان سامنے آیا کہ ہم دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہیں چونکہ اس ڈیم کی تعمیر سے ہمارے زیرِ انتظام کشمیر اور لداخ کا بڑا حصہ غرقاب ہو جائے گا یہ ایسا پاگل پن ہے جسے صرف چینی یا چاہ بہار چوٹ کا اثر ہی کہا جا سکتا ہے ورنہ تو کہاں بھاشا ڈیم اور کہاں لداخ ، اس سے پہلے گلگت بلتستان کے کئی علاقے آتے ہیں انہیں غرقاب ہونے کا کوئی خطرہ نہیں تو سینکڑوں میل دورلداخ کو کیسے خطرہ درپیش ہو سکتا ہے ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت اس وقت اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے اور کشمیر و لداخ نہیں بلکہ شر پسند بھارت کی خطے میں غنڈا گردی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس کی سازشیں غرقاب ہو رہی ہیں۔

کشمیریوں کی استقامت سے جنونی بھارت پہلے ہی جھلملایا ہوا تھا ایسے میں چین نے لداخ سے ایسا بھگایا کہ بھارتی سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے ابھی یہ زخم بھرنے نہ پایا تھا کہ ایران نے چاہ بہار سے بے دخل کرتے ہوئے بھارتی غرور خاک میں ملا دیا انڈیا کے لئے یہ شکست لداخ میں اپنا علاقہ کھو دینے سے بھی بڑی ہے سننے میں آ رہا ہے کہ ریلوے لائن منصوبے کے بعد ایران نے گیس منصوبے سے بھی بھارت کو نکال باہر کیا ہے ۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چاہ بہار بندرگاہ بھارت کے لئے اتنی اہمیت کی حامل کیوں ہے کہ ماہرین اس منصوبے سے نکالے جانے کو بھارت کی شکست سے تعبیر کر رہے ہیں اس کی اہم اور بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جائے لیکن پاکستان کے ساتھ کشیدہ  تعلقات کی وجہ سے وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکا  اور اسے افغانستان اور وسطی ایشیاء تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہا۔

سال 2016 میں جب پاکستان ابھی سی پیک کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا ایران کے دورے پر گئے نریندر مودی نے تہران میں چاہ بہار بندرگاہ کے تعمیری منصوبے پر دستخط کئے بلاشبہ یہ کوئی چھوٹا منصوبہ نہیں تھا بھارت کی مغربی ریاست گجرات میں واقع کاندھلہ بندرگاہ کو ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے ملاتے  ہوئے زاہدان اور زاہدان  سے افغانستان 628 کلومیٹر طویل ریلوے لائن بچھانے کا ایک بہت بڑا منصوبہ جس کا تخمینہ تقریبا ایک ارب 60 کروڑ ڈالر لگایا گیا تھا امریکہ کی طرف دیکھتے رہ جانے کی وجہ سے بھارت نے کھو دیا۔

مئی 2016 میں طے پانے والے اس معاہدے کے ذریعے بھارت پاکستان کو اوور کراس کرتے ہوئے افغانستان اور وسطی ایشیاء تک پہنچنے کے حسیں خواب دیکھ رہا تھا لیکن شش و پنج میں رہنے کی وجہ سے وہ اس منصوبے پر کام شروع نہ کر سکا، آئے روز امریکہ کی جانب سے ایران پہ عائد ہوتی پابندیوں سے خود ایران کی نسبت بھارت زیادہ خوفزدہ ہوا انہیں یہ ڈر تھا کہ کہیں پروجیکٹ شروع ہوتے ہی پابندیوں کی زد میں نہ آ جائے اپنی دانست میں چالاک بھارتی اس منصوبے پر کام شروع کئے بغیر ہی اس سے فوائد حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے رہے اور اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے رہے  بالآخر چار سال کے صبر آزما انتظار کے بعد ایران جو کہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی خرابی کو عار سمجھتا ہے نے بھارت کو اس منصوبے سے الگ کر دیا اب ایران خود ہی اس منصوبے کو مکمل کرے گا جس کی وہ اہلیت بھی رکھتا ہے اور اس منصوبے کی تکمیل کے لئے اس نے رقم بھی مختص کر دی ہے جس کے تحت چاہ بہار سے زاہدان اور وہاں سے اس ریلوے لائن کو افغان علاقے زارنج سے جوڑا جائے گا اسی دوران ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ معاہدے کی بازگشت بھی سنائی دی جو ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے اس معاہدے کے تحت چین ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جوابا ایران بھی تیل کے شعبے میں چین سے تعاون کرے گا اس منصوبے کے متعلق آنے والے دنوں میں ایک تحریر اپنے قارئین کی نذر کروں گا۔

بات کی جائے بھارتی سازشوں کی تو بھارت ہمیشہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے مجبور ایران سے فائدہ اٹھاتا رہا ادھارپہ تیل لینا اور بار بار ادائیگیوں میں تاخیر نے بھارت کو چاہ بہار سے دور کر دیا اس منصوبے سے دوری بھارت کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں ایران چین معاہدے کی صورت میں ایران کی مجبوریوں کا خاتمہ ہوگا چونکہ چین کی صورت میں اسے ایک بہترین  اسٹریٹجک پارٹنر مل چکا ہے جو نہ صرف ایرانی تیل کا بڑا خریدار ہو گا بلکہ ایران میں بھاری سرمایہ کاری بھی کرے گا چین کو بھی اس وقت امریکہ جیسے شاطر حریف کا سامنا ہے دونوں ممالک کے درمیان  سفارتی کشیدگی بھی بڑھ چکی ہے  پومپیو نے عندیہ دیا ہے کہ امریکہ چین کے خلاف ایک بڑا اتحاد تشکیل دینے جا رہا ہے  ایسی صورتحال میں چین کو بھی ایک مضبوط اور ڈٹ جانے والے دوست کی اشد ضرورت ہے جو اسے ایران کی صورت میں مہیا ہو چکا ہے۔

وطن عزیز پاکستان کے خلاف سیاست سے لے کر کرکٹ کے میدانوں تک ہمہ وقت سازشوں میں مصروف بھارت اس وقت خطے میں تنہا دکھائی دے رہا ہے پڑوسی ممالک پاکستان، چین، بنگلہ دیش اور نیپال کے ساتھ اس کے تعلقات انتہائی ناخوشگوار ہو چکے ہیں ایسی صورتحال میں  چاہ بہار سے اخراج بھارتی تنہائی میں مزید اضافے کا سبب بنے گا اس منصوبے کے ذریعے گوادر اور سی پیک کی اہمیت کو کم کرنے کا بھارتی خواب چکنا چور ہو چکا اور اسکی سازشیں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ 

تحریر: محمد ثقلین واحدی

Msaqlain1412@gmail.com