اسرائیل اور ترک معاہدے میں پوشیدہ شقوں پر ایک نظر


اسرائیل اور ترک معاہدے میں پوشیدہ شقوں پر ایک نظر

ترک حکومت اور اسرائیل کے درمیان معاہدے میں اردگان حکومت نہ صرف غزہ کے محاصرے کے خاتمے کی شرط سے دست بردار ہوگئی ہے بلکہ اس محاصرے کو باضابطہ طور پر تسلیم بھی کیا ہے

تسنیم نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ترک حکومت اور اسرائیل کے درمیان گذشتہ ہفتے کو ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی روابط جو 2010ء سے ڈیڈ لاک کا شکارہوئے تھے، اب دوبارہ معمول پر آئیں گے۔

یہ معاہدہ چند آشکار اور پوشیدہ شقوں پر مشتمل ہے جبکہ اسرائیل کے حکمران اس معاہدے کے تمام شقوں کو منظرعام پر لانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

جہاں تک ترک حکمرانوں کا تعلق ہے ان میں سے اکثر ان شقوں کے منظر عام پر لانے کے حق میں نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ نہ تو ان شقوں کی تکذیب کرتے ہیں اور نہ ہی تکذیب کرنے کی جرأت رکھتے ہیں۔

جو بات اب تک واضح ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ترک حکومت اس معاہدے کی وجہ سے مغلوب ہوگیا ہے۔ گرچہ اسرائیل نے ظاھری طور پر «ماوی مرمره» کشتی کے واقعہ پر ترکی سے معذرت کرلی ہے لیکن اس معاہدے کو مشاہدہ کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل ترکی حکومت سے ہرگز معافی نہیں مانگے گا۔ 

جرأت مندی سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ترکی کو اس شرمناک معاہدے پر دستخط کرنے سے بہتر تھا کہ اسرائیل سے معافی مانگ لے۔

اس معاہدے کی ایک افسوس ناک بات یہ کہ اسرائیل نے بغیر کسی کریڈٹ کے ترکی سے اپنے سارے مطالبات منوا لئے ہیں۔ ان مطالبات میں سے سر فہرست اور اہم بات یہ ہے کہ ترکی اس کے بعد عزہ کے لوگوں کو انسانی امداد فراہم نہیں کر سکے گا۔

اس معاہدے کی وجہ سے ترکی کے 9 شھریوں کا خون جو کہ «ماوی مرمره» کشتی کے واقعہ میں بہہ گیا تھا، ضایع ہو گیا ہے۔

اس شق کے مطابق اس کے بعد ترکی کی کسی عدالت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اسرائیلی فوجیوں کے خلاف جو اس واقعہ میں ملوث تھے، مقدمے کی سماعت کرے۔

اسرائیل کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہم نے ترکی کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ آج تک جتنے بھی مقدمات اس سلسلہ میں ترکی کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ان سب کو خارج کردیا جائے اور ترکی اس بارے میں اس کے بعد کسی قسم کا کوئی دعوی نہیں کرسکتا۔

یہ شق صرف ترکی کی عدالتوں تک محدود نہیں بلکہ ترک مذاکراتی ٹیم نے وعدہ کیا ہے کہ بین الاقوامی عدالتوں میں درج شکایات کو بھی واپس لے گا۔

 صیہونیوں کی اس معاہدے میں سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ترکی نے بین الاقوامی سطح پر تمام تنظیموں اور تحریکوں میں اسرائیل کی حمایت کا وعدہ کیا ہے۔

اور ترکی جو نیٹو میں شامل ہونے والا ہے، اسرائیل کو اس گروه میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے اپنے ویٹو حق سے بھی دست بردارہوگیا ہے۔ اسرائیل جو کئی عشروں سے نیٹو گروہ میں شامل ہونے کی حسرت رکھتا تھا، نے یہ حسرت بھی حاصل کرلیا ہے۔

اس معاہدے کے مطابق ترکی جن بین الاقوامی تنظیموں اور تحریکوں میں شامل ہے، ان میں اب اسرائیل کے خلاف کچھ نہیں کرسکے گا بلکہ ترکی نے وعدہ کیا ہے کہ اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ ان تنظیموں اور تحریکوں میں شامل ہونے میں مدد بھی دیگا۔

جمہوریہ ترکی کی تاریخ میں جتنے بھی رایٹ وینگ (right wing) یا لیفٹ وینگ (left wing) فوجی یا غیر فوجی لوگوں کے ووٹ سے یا مارشل لاء کے ذریعے جو بھی حکومت بر سر کار آئی ہے کسی نے بھی اسرائیل کی اتنی خدمت اور پذیرایی نہیں کی ہے جتنے کہ اردگان کی حکومت نے حالیہ دور میں انجام دی ہے۔

دوسری طرف ترکی نے اس معاہدے کے تحت اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی اور قبضے کو بھی باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ہے۔

ترکی کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کی وجہ سے اب غزہ کے عوام کو مدد فراہم کرنے کا حق حاصل کرلیا ہے لیکن در حقیقت اگر دیکھا جائے تو ترکی کو یہ حق پہلے سے حاصل تھا۔ حتی کہ یہ حق فقط ترکی کو ہی حاصل نہیں تھا بلکہ بہت سے دوسرے ممالک بھی فلسطینی عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کرتے آرہے ہیں۔

اصولی طور پر فلسطین کے عوام اسی بشردوستانہ امداد کی وجہ سے ہی اب تک زندگی جی رہے ہیں لہذا اسرائیل اور ترکی کے درمیان اس معاہدے میں فلسطینی عوام کو کوئی خاص پیکج نہیں ملا ہے۔۔

حقیقت یہ ہے کہ غزہ ہوا، سمندر اور خوشکی سے صیہونیوں کے محاصرے میں ہے۔ غزہ کے عوام کو استعمال کرنے کے لیے نہ تو کوئی بندرگاہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی ایئرپورٹ۔ غزہ میں کوئی بھی کام اسرائیل کی اجازت کے بغیر انجام نہیں پاتا حتی کہ مصر کی گذرگاہ کو بھی اسرائیل کی اجازت کے بغیر آمد و رفت کے لیے استعمال کرنا ممکن نہیں ہے۔ صیہونیوں کی اجازت کے بغیر کسی قسم کی سرمایہ کاری ممکن نہیں اور اسرائیل متنبہ کرچکا ہے کہ غزہ میں کسی قسم کا صنعتی زون لگانا صیہونی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہوگا۔

دراصل صیہونیوں نے غزہ کو ایک بہت بڑے جیل اور قیدخانے میں تبدیل کر دیا ہے اور یہ اسرائیل کی  تبدیل نہ ہونے والی پالیسی ہے۔

حقیقت میں «ماوی مرمره» کشتی کے غزہ منتقل کرنے کا مقصد ہی ظالمانہ ناکہ بندی کو ختم کرنا اور فلسطین کے اس ٹکڑے کو آزادی دلانا تھا اور اردگان نے بھی 2010ء سے 2016ء تک اسرائیل کے ساتھ صلح کو غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے سے مشروط کیا تھا اور اس شرط کو غیر قابل تغییر قرار دیاتھا لیکن اس معاہدے سے اردگان حکومت نہ تنھا اس شرط سے دست بردار ہوگئی ہے بلکہ غزہ کی ناکہ بندی کو درست اور جائز قرار دیا ہے یہاں تک کہ پچھلے ہفتے ( لیڈی لیلا) نامی ایک کشتی کو بھی بشردوستانہ امداد کے تحت غزہ بھیجنے کے بجائے اشدود بندرگا منتقل کیا تھا اور اسرائیل نے اس کھیپ کی تمام چیزوں کو اپنے کنٹرول میں لانے کے بعد زمینی راستے سے غزہ بھیج دیا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ترک حکومت نے غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کے بجائے اسے باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ہے۔

ترکی اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ ہوتے وقت بعض ترک سیاستدانوں نے اسرائیل کو دوست، اتحادی اور ایک ایسا ملک کہ جس کے ہم محتاج ہیں، کے عناوین سے یاد کیا۔

ایک اسلامی ملک کی جانب سے اسرائیل کو اس قسم کے الفاظ سے یاد کرنا صیہونی حکومت کے لیےایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

اس کے بعد اگر کوئی اسلامی ملک اسرائیل کو تنقیید کا نشانہ بنائیگا تو اسرائیل اس کے جواب میں ترکی کو اپنا اتحادی اور دوست کہلائے گا جو ایک بہت بڑا اسلامی ملک ہے۔

اسرائیل اور ترکی کےمعاہدے سے یہ نتیجہ اخذ کیا سکتا ہے کہ اردگان کی حکومت نے اس معاہدے پر دستخط کرکے ترکی کی جمہوریت کی تاریخ میں ایک سیاہ کارنامہ درج کر دیا ہے۔

تحریر: حمید قدسی آذر

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری