کشمیری مسلمانوں کے ساتھ امام خمینی (رہ) کی والہانہ ہمدردی تھی


کشمیری مسلمانوں کے ساتھ امام خمینی (رہ) کی والہانہ ہمدردی تھی

متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ نے کہا ہے کہ ایرانی عوام اور مذہبی رہنماؤں کی بے دریغ حمایت کے باوجود انقلاب کے بعد آنے والی آخری حکومتوں کی پالیسی میں کشمیر کاز کی اخلاقی اور سیاسی حمایت میں خاصی کمی آئی ہے۔ یہ ایسے حالات میں ہے کہ انقلاب ایران کو ہم عالم اسلام کا انقلاب اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی آواز سمجھتے تھے اس لئے یہ کمزوری نہیں آنی چاہئے تھی۔

محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین شاہ 27 سال سے سرگرم کشمیری گروہ حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر  کے علاوہ متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔

متحدہ جہاد کونسل کم ا ز کم ایک درجن چھوٹی بڑی مسلح تنظیموں کا اتحاد ہے جس کی قیادت پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مقیم ہے۔

یونائٹیڈ جہاد کونسل یا متحدہ جہاد کونسل کا قیام 1992 میں عمل میں آیا تھا۔ یہ تنظیم ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کے خلاف کی کارروائیوں میں مصروف ہے۔

متحدہ جہاد کونسل میں حرکت الانصار، لشکر طیبہ، حزب المجاہدین،جمعیت المجاہدین، الجہاد،البراق، البدر، اخوان المسلیمین اور تحریک مجاہدین نامی جماعتیں شامل ہیں جو بھارتی کشمیر میں جہاد کر رہی ہیں۔

کمشیر کی حالیہ بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر تسنیم نیوز ایجنسی کے نمائندے نے سید صلاح الدین شاہ سے ایک انٹرویو لی ہے جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

انقلاب کے بعد ایران کا کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ایک والہانہ ہمدردی رہی لیکن ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ حمایت کم ہو گئی ہے

تسنیم نیوز:جیسے کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ امام خمینی (رہ)، امام خامنہ ای اور ایرانی قوم کی نظرمیں کشمیر کا مسئلہ اسی طرح ہے جس طرح فلسطین کا ہے۔ ایرانی قوم نے ہمیشہ جہاد میں کشمیریوں کا ساتھ دیا ہے لیکن دونوں ملکوں کے عوام کے دشمن عناصرغلط پروپیگنڈے کرکے کشمیر کے مسئلے میں ایرانی کردار کو کمزور دکھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس قسم کے غلط تبلیغات کا کیسے سد باب کیا جا سکتا ہے؟ آپ کی کیا رائے ہے؟

سید صلاح الدین شاہ: بسم اللہ الرحمان الرحیم۔۔۔ آپ نے بہت اہم سوال کیاہے۔ مرحوم خمینی صاحب کی قیادت میں جب انقلاب ایران اپنی تکمیل کو پہنچا تو اس کے بعد میں دو بار وہاں گیا ہوں اور وہاں متعلقہ اداروں کے ساتھ رابطے کے بعد اور مجھے بحیثیت مہمان انہوں نے خوب نوازا اور میری کاز اور میری تحریک کے ساتھ نہایت ہمدردی کا مظاہرہ کیا، امام خمینی مرحوم کے انقلاب کے تین بنیادی ستون تھے؛

سپر پاور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

سارے کلمہ گو انسان یعنی لااله الا الله و محمد رسول الله پڑھنے والے ایک امت ہیں، تمام مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات سے بالاتر ہو کر کام کیا جائے گا۔

تمام مستضعفین عالم یعنی دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا۔

اور یہی تین بنیادی اصول اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی بنے۔ ان ہی اصولوں کے تحت ایران کا کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ایک والہانہ ہمدردی اور حمایت رہی لیکن سچ تو یہ ہے کہ چند سالوں کے بعد ناگزیر وجوہات کی بنا پر ہم نے خود محسوس کیا کہ ایران کی خارجہ پالیسی میں کشمیر کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ جن جہادی اور سیاسی قیادتوں نے یہ محسوس کیا ان میں میں بھی شامل تھا، یہاں ہمارے دوست ہیں جیسے شجاع عباس صاحب، عثمان رضوی صاحب جو میرے ساتھ وہاں گئے تھے جن کی وساطت سے اداروں کے ساتھ رابطے بھی تھے، تو یہ شکوہ ہم نے بار بار ان سے کیا، انہوں نے جواب میں ہمیں یہ کہا کہ ایران کے عالمی سطح پر کچھ مسائل ہیں اور ہم بھی سمجھ رہے تھے کہ مسائل موجود ہیں، بدقسمتی سے اپنوں میں سے بھی کچھ دشمنی کر رہے ہیں اور پرائے تو ہیں ہی دشمن، ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی مسائل کی وجہ سے ایران کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، ایران ہر محاذ پر لڑ نہیں سکتا، فی الحال ایران نے حزب اللہ کے ایشو پر فوکس کیا ہوا ہے اور اسی محاذ پر اخلاقی، سفارتی اور باقی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں، ایسے میں ان کے لئے مشکل ہے کہ وہ کشمیر کے محاذ پر سرگرمی سے اپنا رول ادا کرے۔ کشمیریوں کے ساتھ ایران کی جانب سے گاہے گاہے ہمدردیاں کی جارہی ہیں، آخر کار کشمیر کو ایران صغیر کہا جاتا ہے، فی الحال حزب اللہ کے ساتھ ساتھ کشمیری محاذ پر فعال کردار ادا کرنا اور موجودہ حالات میں ہندوستان کی دشمنیوں کو مول لینا اور علاقائی حالات کے تناظر میں اس وقت ایران اس کا متحمل نہیں ہو سکتا، انقلاب کے بعد امام خمینی نے مستضعفین عالم کی اعانت کا عام اعلان کیا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران صرف اللہ سے ڈرتا ہے، لیکن کشمیر کے معاملے میں مظلوم مسلمانوں کی اعانت کے حوالے سے خاصی کمی آگئی ہے، انقلاب کے بعد والی ایرانی حکومتوں کی پالیسی میں کشمیر کاز کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کے حوالے سے خاصی کمی آئی ہے اور غالباً یہ اس لئے کہ کہیں ہندوستان ناراض نہ ہو جائے، انقلاب ایران کو ہم عالم اسلام کا انقلاب سمجھتے تھے اور اسے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی آواز سمجھتے تھے، یہ کمزوری نہیں آنی چاہئے تھی،  مرحوم خمینی نے فرمایا تھا کہ نفع و نقصان اللہ کے ہاتھ ہے اور ایک ہی طاقت کو خیر و شر کا مالک سمجھتے ہیں، وہی ایک ذات ہے جو سپر پاور ہے،  خیر بعد میں اعانت اور ہمدردی کا وہ لیول نہیں رہا اور اس میں کمی آگئی ۔

حالیہ بھارتی مظالم کے خلاف مختلف شہروں میں عوامی ریلیوں پر ایرانی قوم کے شکر گزار ہیں

تسنیم نیوز: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایرانی جوانوں اور یونیورسٹیز کے طلاب نے کشمیر کے حالیہ ظلم و جبر اور بے گناہ کشمیری مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر ملک کے سبھی شہروں کے علاوہ میڈیا کے ذریعے بھی احتجاج  کیا ہے اور ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس قسم کے مظالم کی روک تھام کےلئے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالے، ایرانی حکومت نے بھی کافی اقدامات اٹھائے ہیں۔ ایرانی قوم نے ملک کے سبھی شہروں میں نماز جمعہ کے بعد کشمیریوں کے حق میں مظاہرے کئے ہیں۔ تو آپ ایرانی جوانوں کو کشمیریوں کی حمایت کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

سید صلاح الدین شاہ: برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد ریاستی عوام سڑکوں پر نکل آئے اور سراپا احتجاج بن گئے۔ بھارت کے ساڑھے سات لاکھ درندہ صفت بھیڑیوں نے وہاں ظلم و زیادتی کی،  اس کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران میں وہاں کی قیادت اور عوام نے جو احتجاج کیا اور ہمدردی کا اظہار کیا، اس کے لئے ہم سب اور کشمیر کے سارے عوام شکر گزار ہیں امید کرتے ہیں کہ یہ ہمدردی اور اخلاقی مدد جاری رہے گی۔ یہ صرف ایران کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے، یہ پاکستان کا مسئلہ ہے، مذمتی قراردادیں پاس ہو رہی ہیں، احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، نہتے کشمیریوں کے ساتھ ہمدردری کا اظہار ہو رہا ہے، آل پارٹیز کانفرنسز ہو رہی ہیں، یہ سب کچھ پاکستان کے بیس کیمپ سے ہور ہا ہے، ان سب کے باوجود نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ بھارت اور مودی سرکار کے اسلام دشمن جنون میں کمی واقع نہیں ہو رہی، وہ خون مسلم کے پیاسے ہیں، انہوں نے برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد نہتے کشمیریوں پر بندوقیں چلائیں، پانچ ہزار ایک سو لوگوں کو بری طرح زخمی کیا، ان میں سے بہت سارے قریب المرگ ہیں، ڈیڑھ سو کی آنکھوں کی بینائی ختم ہو چکی ہے، اسی سے زائد افراد جام شہادت نوش کر چکے ہیں، دسیوں بہنوں، بیٹیوں کی آبرو تار تار ہو چکی ہے، ہزاروں کارکنان پابند سلاسل ہیں، یہ ظلم ہو رہا ہے، آئے دن اس ظلم میں اضافہ ہو رہا ہے، کشمیر کو فوجی کیمپ میں تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے، کرفیو جاری ہے، بنیادی ضرورتیں اور بیماروں کی دوائیاں تک مفقود ہیں، زندہ رہنے کے لئے بنیادی ضروریات تک مفقود کر دی گئی ہیں۔   ان حالات میں عالم اسلام، او آئی سی جس کے ایران اور پاکستان بھی رکن ہیں، کا فرض بنتا تھا کہ مؤثر کارروائی کریں۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو متوجہ کریں کہ کشمیر میں نہتے عوام کا قتل ہو رہا ہے، وہاں ساڑھے ساتھ لاکھ درندہ صفت برہمن فوج نہتے کشمیریوں پر مسلط ہو کر ان کا خون بہا رہے ہیں اور ان کو روکنے کی فوری ضرورت ہے، اے کاش! تمام مسلمان ممالک متوجہ ہوتے، یہ صرف ایران کا معاملہ نہیں ہے، یہ پورے عالم اسلام کا معاملہ ہے لیکن عالم اسلام آج بے حس اور مردہ ہو چکا  ہے۔ او آئی سی کا ادارہ آج تک ایک بھی کمیشن مقبوضہ علاقے میں بھیجنے میں کامیاب نہیں ہوا تاکہ وہاں کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کو وہاں بھیجنے میں کامیاب نہیں ہوئے تاکہ عالمی برادری کو وہاں پامال ہونے والے انسانی حقوق کے بارے میں کچھ دکھایا جاسکے۔ سیکیورٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹا کر بھارتی ظلم و بربریت کو روکنے میں کردار ادا کیا جائے۔ اس کے لئے عالم اسلام کا کردار کچھ نظر نہیں آتا، بشمول ایران بشمول پاکستان کے، مسلمان ممالک کشمیریوں کو بھارتی قتل عام سے بچا سکتے ہیں، وہاں اس وقت قحط سالی ہے، انڈیا چاہتا ہے کہ کشمیری عوام کو ختم کر دیا جائے تاکہ مزاحمت ختم ہو جائے۔ اس ظلم کو روکنے کے لئے ہمیں کوئی ٹھوس سپورٹ نظر نہیں آرہی، صرف ایران نہیں بلکہ میں پاکستان کی بھی یہی شکایت کرتا ہوں جبکہ او آئی سی اور عالم اسلام کا کردار بھی برائے نام ہے۔

حزب المجاہدین کشمیر کی مٹی سے اٹھنے والی مظلوموں کی آواز ہے/ تنظیم کو دہشت گرد قرار دینے کی بھارتی سازشیں

تسنیم نیوز:ایران کے اندر بھارتی لابی یا اس کے طرفدار عناصر، حزب المجاہدین کے خلاف قسم قسم کی افواہیں پھیلاتے ہیں اور آپ کی تحریک جو کہ کافی عرصے سے کشمیر کی آزادی کے لئے بر سر پیکار ہے، کے خلاف بھی مختلف قسم کی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حزب المجاہدین کشمیر کی آزادی کے بجائے پاکستان کی سیاستوں پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کرتی ہے، گویا کہ پاکستانی سیاست کی ترجمان تنظیم ہو۔ حتی بعض موقعوں پر تو یہ حزب پاکستان اور افغانستان کے اندر خود مسلمانوں کے ساتھ  لڑ کر بے گناہ مسلمانوں کا خون بہاتی ہے۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ اس تنظیم کے عقائد تکفیری ہیں، خود کے علاوہ تمام اسلامی فرقوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ براہ کرم ''ایرانی قوم کو'' حزب المجاہدین اور اس کے گزشتہ جہادی سرگرمیوں کے بارے میں وضاحت کیجئے۔

سید صلاح الدین شاہ: ایرانی عوام سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ان کے پاس پہلے سے ہی حزب المجاہدین کا تعارف موجود ہے، حزب المجاہدین کشمیر کی مٹی سے اٹھنے والی ایک تحریک کا نام ہے، کشمیر بیسڈ آرگنائزیشن ہے، بھارت نے عالمی سطح پر خوب سفارتی مہم جوئی کی تاکہ اس تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا جائے لیکن آج تک اسے رسوائی کا سامنا ہی کرنا پڑا ہے۔ حزب المجاہدین کے تقریباً تیس سے چونتیس ہزار شہدا ہیں، جن میں مجاہدین بھی ہیں اور معاونین بھی۔ ان میں برائے نام ہی کوئی پاکستانی ہوگا، ہاں ان میں سے بعض جو بھارتی ظلم و بربریت سے تنگ آکر کشمیر سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے، دوبارہ واپس جاکے جہاد میں حصہ لیا اس لئے وہ بھی اصل میں کشمیری ہی ہیں، ہمارے شہدا سب کشمیری ہیں، بھارت کے خلاف صرف کشمیری ہی برسر پیکار ہیں۔

شہدا سب کشمیری ہیں/ پاکستانی کی جانب سے کشمیریوں کو سپورٹ کرنے کے الزامات بھارت کا منفی پروپیگنڈا ہے

تسنیم نیوز:یہاں پر لوگ شہید برہان وانی کی شخصیت، مذہبی اعتقادات اور ان کی خواہشات کے بارے میں خاص معلومات نہیں رکھتے ہیں۔ براہ کرم شہید کی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں۔

سید صلاح الدین شاہ: یہ جو برہان مظفر وانی شہید ہوا، اکیس سال کا ننھا شہید تھا، اس سے قبل اس کا بھائی خالد مظفر وانی بھی کشمیر میں شہید ہوا، اس کے علاوہ ان دنوں اسی سے زائد مجاہدین جام شہادت نوش کر گئے ہیں، سب کشمیری تھے، بھارت کا منفی پروپیگنڈا ہے، بھارت یہ مذموم تاثر دینا چاہتا ہے کہ کشمیریوں نے جہاد چھوڑ دیا ہے یا پاکستان اس کو سپانسر کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پورا کشمیر جیل خانہ بنا ہوا ہے، پانچ ہزار ایک سو لوگ بری طرح زخمی ہوئے ہیں، جن میں بہت سے قریب المرگ ہیں،  کیا ان میں کوئی پاکستانی ہے؟  یہ صرف اور صرف بھارت کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے، اس بے بنیاد پروپیگنڈے کو پذیرائی نہیں ملنی چاہئے۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری