پاک - ایران کے مابین اعلیٰ سطحی عسکری و انٹیلی جنس تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے


پاک - ایران کے مابین اعلیٰ سطحی عسکری و انٹیلی جنس تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے

پاکستانی کالم نگار کا کہنا ہے کہ پاک - ایران کے مابین اعلیٰ سطحی عسکری و انٹیلی جنس تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے جبکہ ایک جامع دفاعی معاہدہ دونوں کے مفاد میں ہوگا جس میں سرحدی امور بھی شامل ہوں تو انٹیلی جنس اور دفاعی معاونت بھی۔

پاکستانی تجزیہ نگار عرفان علی کی جانب سے تسنیم نیوز ایجنسی کو بھیجے گئے کالم میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لئے ناگزیر ہیں۔

پاکستان اور ایران ایک دوسرے سے جان نہیں چھڑا سکتے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تردید ممکن ہی نہیں۔ دونوں ملک 928 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحدی پٹی کے ذریعے ایک دوسرے کے براہ راست زمینی پڑوسی ہیں تو خلیج فارس کے دہانے پر سمندری پڑوسی بھی۔ پاکستان کی بھارت اور افغانستان کے ساتھ سرحدی پٹی غیر محفوظ ہے لیکن ایران کے ساتھ یہ طویل سرحدی پٹی محفوظ ہےاور اس سرحدی پٹی پر ایران نے پاکستان میں داخلے کے لئے دور اور مشترکہ کراسنگ قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ایک چابہار میں ریمادان اور دوسرا ساراوان میں پشین کے مقام پر۔ یاد رہے کہ پاکستان میں بھی ایک علاقہ پشین ہے جو اس ایرانی علاقے سے بہت دور ہے۔ اس سے قبل پاکستان ایران کے مابین مرکزی گذرگاہ تفتان میرجاوہ کا مقام تھا۔ یہ تو ہوئی سرحدی صورتحال لیکن اس کے علاوہ بھی ہم میں کئی مشترکات ہیں۔

ایک دور میں پاکستان کے پڑھے لکھے افراد اپنے گھروں میں بھی گلستان و بوستان سعدی نامی فارسی کتابیں رکھا کرتے تھے اور اس میں سے حکایتیں سنایا کرتے تھے۔ فارسی پاکستان پر ہمیشہ سے اثر انداز رہی ہے۔ سندھ میں ایسے کئی ادیب و بزرگان تھے جنہوں نے فارسی میں بہت کچھ لکھا۔ حتیٰ کہ میرعلی شیر قانع ٹھٹھوی نے سندھ کی تاریخ بھی فارسی میں ہی لکھی تھی۔ فارسی تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان تھی تبھی تو یہ محاورہ وجود میں آیا کہ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیا۔ یعنی پڑھا لکھا فرد فارسی سے کیوں گھبرائے گا۔ سندھ میں ٹالپر حکمران سرائیکی زبان بولا کرتے تھے ان کے دور میں بڑے لوگوں کی ایک نشانی یہ تھی کہ ان کے پاس سواری کے لئے گھوڑے ہوا کرتے تھے اور اسی دور میں یہ مقولہ مشہور ہوا: فارسی گھوڑے چاڑسی ! جی یہی فارسی ہے جو ایرانیوں کی قومی زبان ہے۔ حافظ شیرازی، بو علی سینا، فرید الدین عطار، عمر خیام، ملا صدرا کی زبان۔ ایک دور میں یہ پاکستان بھر میں اسکولوں میں پڑھائی جاتی تھی۔ پاکستان کی قومی زبان اردو فارسی الفاظ کے بغیر نامکمل ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کا قومی ترانہ بھی فارسی الفاظ پر مشتمل ہے لیکن اب پاکستان میں اتنا قحط الرجال ہے کہ ایران میں جو سفیر تعینات کیا جاتا ہے اسے فارسی نہیں آتی۔ اس سے تو بہتر تھا کہ افتخار عارف جیسے شعراء ہی ایران میں پاکستان کے سفیر ہوتے۔

یہ تو ہوئی ایک طرف کی بات لیکن دوسری طرف ایران میں پاکستان کو ایک اہم مقام حاصل ہے اور اس کی وجہ بانیان پاکستان ہیں۔ خاص طور پر علامہ اقبال اور محمد علی جناح۔ ان دونوں ہستیوں کے نام سے ایران میں شاہراہیں ہیں۔ اب وہاں یہ رجحان ہے کہ پاکستان کی وجہ سے وہاں کے سفارتکار اردو سیکھ رہے ہیں۔ ماضی قریب میں کراچی میں تعینات کئے گئے دو قونصلر جنرل اردو میں گفتگو کرتے تھے۔ ایرانی سفارتکاروں کا اردو سیکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پاکستان کو اہمیت دیتے ہیں۔ ماہ اگست 2016ء میں ایران کے نائب وزیر خارجہ سید کاظم سجادپور نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی میں انہوں نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز میں ایران کی تزویراتی سوچ میں پاکستان کا مقام کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایران میں کوئی بھی ایسا نہیں کہ جسے پاکستان کے ساتھ اچھے ایرانی تعلقات استوار کرنے پر اعتراض ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے پاس ایک دوسرے سے اچھے تعلقات رکھنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں ہے اور کسی تیسرے فریق کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ ان تعلقات کو خراب کرے۔ انہوں نے بہت ہی زیادہ اہم بات یہ کی کہ ایران کے بارے میں پاکستانی اندازوں اور مفروضوں کی بنیاد پر بات نہ کریں بلکہ براہ راست ایرانی حکام سے روابط رکھیں اور ہر مسئلے کو بات چیت میں پیش کریں۔ سجادپور ایران کے تزویراتی مفکر بھی ہیں اور ان کی پیش کردہ رائے کی اہمیت بھی ہے۔

پاکستان اور ایران ہر شعبے میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے دونوں طرف اعتماد کی فضاء قائم ہونی چاہئے۔ پاکستانی ریاست ایران کی قیادت کے سامنے سعودی عرب اور امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کی حدود و قیود کو واضح کرے کیونکہ امریکا اور سعودی عرب ایران کے خلاف ایک اتحاد قائم کرچکے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں ایک نہ ختم ہونے والی تباہ کن نیابتی جنگ کے شعلے بھڑکانے میں بھی ان دونوں کا ہی کردار ہے جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ سعودی عرب سات نکاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور اس میں ایران کا نظام حکومت تبدیل کرنا، اسرائیل کو تسلیم کرنا اور ایک آزاد کرد ریاست کا قیام بھی شامل ہے اور اس کرد ریاست کے قیام کا مطلب ایران اور ترکی کی جغرافیائی حدود میں عدم استحکام اور تقسیم کا عمل ہے۔

لا محالہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کو بھی سعودی و امریکی ایران کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں اور بلوچ علیحدگی پسند جرمنی میں اسرائیل نواز یہودی تنظیم کے اجلاس میں جعلی ریاست اسرائیل کے سابق وزیر سے ملاقات کرچکے ہیں جبکہ سعودی شہزادہ ترکی ال فیصل ایران میں دہشت گردی کرنے والے گروہ منافقین خلق کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرکے انہیں اپنی مدد و حمایت کا یقین دلا چکے ہیں۔ سابق سعودی جنرل انور عشقی تل ابیب کا دورہ کرکے سعودی ایجنڈے پر کام کا باقاعدہ آغاز بھی کرچکے ہیں۔ ایران میں دہشت گردی کرنے والے گروہ جنداللہ یا جیش العدل کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ یہ صوبہ بلوچستان میں روپوش ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسندوں اوران ایرانی بلوچ گروہوں کا ایجنڈا ایک ہے اور دونوں ممالک کی ریاستوں کے پاس باہمی تعاون کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا کہ وہ اس مشترکہ خطرے سے مشترکہ طور پر نمٹیں۔ اس کے لئے پاکستان اور ایران کے مابین اعلیٰ سطحی عسکری و انٹیلی جنس تعاون کی ضرورت ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ایک جامع دفاعی معاہدہ دونوں کے مفاد میں ہوگا جس میں سرحدی امور بھی شامل ہوں تو انٹیلی جنس اور دفاعی معاونت بھی۔ چاہیں تو اسے اسٹرٹیجک ٹریٹی میں تبدیل کردیں۔ وزرائے داخلہ کی سربراہی میں ٹاسک فورس سیکیورٹی کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اس لئے ناکافی ہے کہ پاکستان میں وزیر داخلہ بے چارہ وردی والوں کی طرح با اختیاراور طاقتور نہیں ہوتا لہٰذا سیکیورٹی سے متعلق ایک اور فورم ہونا چاہئے جو ایران کی جانب سے پاسداران کے تحت ہو اور پاکستان کی جانب سے جی ایچ کیو کے تحت۔ اس سے دونوں ممالک کی سنجیدگی بھی ثابت ہوجائے گی۔

اس ضمن میں ایرانی قیادت کو بھی سوچنا ہوگا کہ پاکستان کی دفاعی ڈاکٹرائن میں بھارت ایک ولن ہے۔ اور انہیں حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا کہ بھارت جعلی ریاست اسرائیل کے بہت قریب آچکا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان عسکری و انٹیلی جنس کے شعبوں میں بھی تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔ ایرانی قیادت اس حقیقت سے بھی واقف ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی حیثیت ایک قابض کی ہے اور اس کا ظلم و ستم مقبوضہ کشمیر میں غزہ پر کئے گئے صہیونی ظلم و ستم سے کچھ کم بھی نہیں۔ ایران دنیا میں مظلوم و مستضعف مسلمانوں کی تحریکوں کی حمایت کرتا ہے اور کشمیری مسلمان بھی مظلوم و مستضعف ہیں۔ انقلابی اسلام میں مستضعفین کی حمایت کا نکتہ سرفہرست رہا ہے۔ امام خمینی اور امام خامنہ ای نے کبھی کشمیری مسلمانوں کو فراموش نہیں کیا لیکن مظلوم کشمیری اور ان کے حامی پاکستانی ایران کی حکومت سے اس سے زیادہ کے خواہشمند ہیں۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم کرنے والے بھارت سے تعلقات استوار کرتے وقت ایران صرف یہ نہ دیکھے کہ پاکستانی ریاست کا مفاد کیا ہے بلکہ یہ دیکھے کہ ایران کے انقلابی اسلام کی ڈاکٹرائن کے تحت انہیں اس ضمن میں کیا کرنا چاہئے۔ پاکستان ہی وہ ملک ہے کہ جس نے توانائی کے بین الاقوامی ادارے IAEAمیں ایران کے حق میں ووٹ دیا تھا جبکہ بھارت نے امریکی دباؤ میں ایران کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ پاکستان ہی وہ ملک ہے کہ جس نے فرانس اور ایران کے تعلقات بحال کروانے میں پس پردہ سفارتکاری کی۔ پاکستان ہی وہ ملک ہے کہ جس نے احمدی نژاد کی حکومت کے دور میں ایران کے امریکا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں بھی بہت زیادہ فعال کردار اداکیا۔ حتیٰ کہ سعودی عرب کی بادشاہت کو بھی سمجھایا کہ ایران کے ساتھ تعلقات ختم نہ کریں۔ لہٰذا ایران کی حکومت اپنے عمل سے یہ ثابت کرے کہ وہ بھارت کی نسبت پاکستان کو اہمیت دیتی ہے اور اس کی دوستی اور تعاون کی قدردانی کرتی ہے۔ پاکستان اور ایران کی قیادتیں یہ اچھی طرح جان لیں کہ یہ دو طرفہ عمل ہے۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجے گی!

جاری ہے۔۔۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری