چینی خاتون کا ایمان اور باپردہ سہیلی کا اثر


چینی خاتون کا ایمان اور باپردہ سہیلی کا اثر

کہتی ہیں: میں کبھی اپنے آپ کو متنبہ کرتی ہوں کہ میں ایک مسلمان ہوں، مجھے مغرور نہیں ہونا چاہئے بلکہ بہترین طرز سلوک اور مثبت کلام کے ذریعے حقیقی اسلام اور مسلمانوں کا تعارف کرانا چاہئے۔

خبر رساں ادارے تسنیم نے مبلغین و نو مسلموں کی ویب بیس ـ راہ یافتگان ـ سے ایک اہل سنت مذہب سے تعلق رکھنے والی چینی خاتون کی داستان نقل کی ہے جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

29 سالہ چینی ہدایت یافتہ خاتون سکینہ کا تعلق چین کے خویی قبیلے سے ہے۔ اس قوم کے تمام افراد مسلمان ہیں لیکن اسلام کی نسبت اپنی کم علمی کی وجہ سے دین اسلام کے بہت سے آداب و رسوم سے ناواقف ہیں۔

یہاں اس خاتون کی مختصر سی داستان حیات قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے کہ وہ کس طرح حجاب سے روشناس ہوئیں، ان کی زندگی کس طرح بدل کر رہ گئی اور انھوں نے کس طرح حجاب کا انتخاب کیا: 

حجاب سے متعارف ہونا

چند سال قبل، میری زندگی بہت سے دوسرے بےایمان اور معمولی افراد کی مانند تھی۔ میرا کھانا کھانا، لباس پہننا وغیرہ بھی بالکل معمولی اور حدود و قیود سے بالکل فارغ تھی۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ ایک مسلمان کا لباس پہننے کا ایک خاص طریقہ ہے اور اس کے اپنے آداب ہیں، میں پردے کے بغیر گھر سے نکلتی تھی اور  مجھے شرم محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ان ہی دنوں میں ایک مسلم سہیلی کے ہمراہ گھر سے مارکیٹ کی طرف چل نکلتی تھی اور اسی کے ہمراہ سیر و سیاحت کرتی اور بازار سے ضرورت کی اشیاء خرید لیتی تھی۔ میری سہیلی باپردہ تھی اور مکمل لباس زیب تن کرتی تھی۔ میں دل ہی دل میں اس کے لباس پہننے کی روش کے بار میں سوچتی تھی اور اس کا لباس بہت عبیب لگتا تھا، لیکن اس کے باوجود اس کے لئے خاص احترام کی قائل تھی۔ وہ درحقیت اپنے لباس اور حجاب سے سکون اور خوبصورتی کا احساس دلا دیتی تھی۔ ایک 20 سالہ نوجوان لڑکی، جو کسی طرح سے بھی بناؤ سنگھار کے درپے نہ تھی۔ میں سوچتی تھی کہ اس کے اس لباس کے پیچھے بھی کوئی منطق تو ہوگی!

حجاب سے قریب تر ہونا

تجسس ـ اور زندگی اور مسکن کے اخراجات کم کرنے کی ضرورت ـ نے آخر کار اپنا کام کر دکھایا اور میں نے اپنی محجّبہ سہیلی کے ہمراہ مشترکہ مکان کرائے پر حاصل کیا اور یوں ہم دونوں ہم خانہ ہوئے۔ رفتہ رفتہ مجھے معلوم ہوا کہ میری سہیلی کا حجاب اور لباس در حقیقت اس کے دین "اسلام" کا سفارش کردہ تھا۔ یوں میرے دل میں اسلام سے لگاؤ نے بھی گھر کرلیا۔ دین اسلام کی شناخت جس قدر بڑھتی گئی اور میں مزید مسلم خواتین سے میل جول رکھنے لگی۔ وہ نماز بجا لاتی تھیں اور روزہ رکھتی تھیں، حیادار، مہربان اور سچی تھیں اور ان کی یہ خصوصیات میرے لئے بہت دلچسپ تھیں۔  اور پھر وہ ایک لادین اور بہت بڑی آبادی والے ملک چین میں بھی اپنے ایمان اور اعتقاد کی پابند اور پردہ داری پر عمل پیرا تھیں۔

حجاب اور نماز

اللہ کا شکر، اپنی سہیلیوں کی راہنمائی اور اللہ کی مدد، نیز میرے اطراف کے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی حمایت سے سمجھ گئی کہ اسلام مکمل ترین حقیقی ترین دین ہے؛ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ ایک حقیقی مسلمان بنوں۔ نماز پڑھتے وقت واجب سمجھتی تھی کہ حجاب پہنوں، لیکن کام کرتے وقت یا گھر سے باہر کی سرگرمیوں کے وقت، حجاب پہننے کی جرأت نہیں کرسکتی تھی۔ اُن ایام میں میرا لباس تمام چینی عورتوں کی طرح تھی۔ در حقیقت ایک مختصر سا دوپٹا میری ضروریات میں شامل ہوچکا تھا جس کو صرف نماز پڑھتے وقت استعمال کرتی تھی

دوپٹا اوڑھنا

ماہ مبارک رمضان سنہ 2014 افطار اور سحر کے اوقات مسلم سہیلیوں کے ساتھ بسر ہوتے تھے جس کی وجہ سے دل میں خاص قسم کا سکون محسوس ہوتا تھا۔ ایک روز سحر کے وقت، مسجد میں سحری کھانے کے بعد، مسجد کے خادم کے ساتھ بات چیت کررہی تھی، اس نے باتوں باتوں میں حجاب کے بارے میں ایک نہایت سادہ سا جملہ ادا کیا جو میرے لئے ایک تنبیہ سے کم نہ تھا؛ گویا میں سو رہی تھی اور خادم نے ایک جملے سے مجھے جگا دیا تھا۔

خادم نے کہا: ایک مسلم لڑکی کے طور پر تمہارے لئے دوپٹا اوڑھنا تمہارے لئے واجب اور ضروری ہے، یہ ایک قسم کا لباس ہے تمہارے لئے اور اس کو ہر جگہ اور ہر وقت تمہارے ساتھ ہونا چاہئے "تاکہ یہ تمہاری حفاظت کرے"۔

ان کا کہنا بالکل درست تھا۔ ایک مسلم لڑکی کے طور پر، سر کو بالوں کو ڈھانپنا، اہم کاموں میں شمار ہوتا ہے اور میرا فریضہ ہے کہ یہ کام انجام دوں۔

اس دن کے بعد سے حجاب میری زندگی کا اہم ترین حصہ بنا، اس کو ہر وقت اور ہر جگہ اہمیت دیتی تھی، اگرچہ جس دن پہلی مرتبہ حجاب کے ساتھ گھر سے باہر نکلی تو گھبرائی ہوئی اور پریشان اور لوگوں کی نظروں سے فکرمند تھی۔ لیکن اس احساس کے مقابلے ـ جو چیز میری حیرت کا سبب بنی یہ تھی کہ ـ میری سہیلیوں اور رفقائے کار کو جب معلوم ہوا کہ میں نے یہ لباس اپنے دین کے حکم پر اپنایا ہے تو انھوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میری حمایت کی۔ میں اپنے دفتر میں کام کے ساتھ ساتھ ـ بوقت نماز ـ نماز ادا کرتی تھی چنانچہ تو میرے ساتھیوں نے ایک پرسکون جگہ میری عبادت کے لئے مختص کر رکھی تھی؛ جس کی بنا پر مجھے معلوم ہوا کہ دین اور عقیدے کے راستے میں سب سے پہلے انسان کو اپنے آپ اور اپنے عقیدے کے لئے احترام کا قائل ہونا پڑے گا اور جب وہ ایسا کرے گا تو رفتہ رفتہ دوسروں کو بھی اپنے اور اپنے عقیدے کے احترام پر آمادہ کرسکے گا۔ 

حجاب سے حاصل ہونے والی بصیرت

حجاب اختیار کرنے کے بعد، میری زندگی میں کسی قسم کا کوئی خلل نہیں پڑا اور کوئی ناہم آہنگی پیش نہیں آئی؛ صرف بعض اوقات ریلوے اسٹیشنوں، ہوائی اڈوں اور بعض عمومی عوامی مقامات پر میں کے میں واقع تلاشی کے نقاط پر، میری تلاشی کچھ زیادہ شدت سے انجام پاتی تھی، یہ ان لوگوں کی ذمہ داری تھی اور میں بھی مسکراہٹ کے ساتھ ان کے ساتھ تعاون کرتی تھیں۔ علاوہ ازیں، چین میں ـ جو ایک غیر مسلم ملک ہے ـ مسلمانوں کی تلاشی دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے۔

وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ، محسوس ہوا کہ میری زندگی زیادہ با مقصد اور با معنی ہوچکی ہے۔ میری ہر حرکت اور ہر بات میری اپنی شخصیت کو آشکار کرتی تھی وار ساتھ ہی میرے اعتقاد اور مذہب کو نمایاں کرتی تھی۔ میں کبھی اپنے آپ کو متنبہ کرتی ہوں کہ "میں ایک مسلمان ہوں، مجھے مغرور نہیں ہونا چاہئے بلکہ بہترین طرز سلوک اور مثبت کلام کے ذریعے حقیقی اسلام اور مسلمانوں کا تعارف کرانا چاہئے۔

جو کچھ میں نے دوپٹے اور حجاب اوڑھنے / پہننے سے سیکھا

کبھی کبھار میری سہیلیاں مجھ سے پوچھتی ہیں کہ دین اسلام کیسا دین ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ ذرائع ابلاغ اور کتب سے مسلمانوں کے بارے میں بعض معلومات حاصل کر ہی لیتے ہیں لیکن اکثر لوگوں کا شوق ہے کہ مسلمانوں سے ان کے دین کے بارے میں پوچھیں اور دین اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم و دانش حاصل کریں۔ یہ وہی وجہ ہے جس کی بنا پر اسلام کے بارے میں میری معلومات میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے اور قرآن اور انبیاء علیہم السلام کی سیرت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرتی ہوں کیونکہ صرف اسی صورت میں، میں پوچھنے والے دوستوں کے سوالات کا کامل ترین اور صحیح ترین جواب دے سکتی ہوں۔

میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے مجھے یہ موقع عطا فرمایا اور میں نے اپنے کھوئے ہوئے فراموش شدہ اعتقاد کو بازیاب کرلیا اور محسوس کرتی ہوں کہ حجاب اختیار  کرنے سے میرے اور میرے اللہ کے درمیان فاصلہ بہت کم ہوچکا ہے۔

میرا ارادہ ہے کہ اسلام کے لئے بہت سارے کام سرانجام دوں اور بہت کچھ سیکھ لوں۔ حقیقت یہ ہے کہ حجاب کا انتخاب میرے کام کا آغاز ہے اور ابھی بہت طویل راستہ میرے سامنے ہے جس کو مجھے طے کرنا ہے اور میری کوشش ہے کہ ایک مسلمان رہوں۔

ان شاء اللہ

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری