خطے کو صدام کے دور میں پلٹانے کےلئے سعوی شہزادوں کی ناکام کوششیں/ وہابی خطے میں المناک ترین خونریزیوں کا سبب


خطے کو صدام کے دور میں پلٹانے کےلئے سعوی شہزادوں کی ناکام کوششیں/ وہابی خطے میں المناک ترین خونریزیوں کا سبب

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے نیویارک ٹائمز میں ایک یادداشت میں لکھا ہے: وہابی ہمارے خطے میں ہولناک ترین اور المناک ترین خونریزیوں کا سبب ہیں اور سعودی شہزادے عاجزانہ کوشش کررہے ہیں کہ علاقے کو ایک بار صدام کے دور میں پلٹا دیں۔

تسنیم خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون (Let Us Rid the World of Wahhabism) میں لکھا:

"مغرب کی تشہیری و تعلقات عامہ کی کمپنیاں تیل سے حاصلہ ڈالر وصول کرنے سے ہرگز نہیں شرماتے، اور ان دنوں ان کو بڑی بڑی رقوم کمانے کے بےمثال مواقع میسر ہوئے ہیں۔ ان کا تازہ ترین منصوبہ ہمیں یہ جتانے کی کوشش ہے کہ القاعدہ کی شاخ "جبہۃ النصرہ" شام میں موجود نہیں ہے، جیسا کہ جبہۃ النصرہ کے ایک ترجمان نے سی این این سے بھی کہا ہے کہ "جبہۃ النصرہ نے اپنا نام بدل دیا ہے، یہ تنظیم القاعدہ کے دہشت گردوں سے علیحدہ ہوچکی ہے اور ایک اعتدال پسند جماعت میں تبدیل ہوچکی ہے!"۔ 

اس طرح کے تعصبات اور کوتاہ فکریاں جاہلیت کو 21ویں صدی کی روشن تصویر کے طور پر پیش کررہی ہیں۔ لیکن ان تشہیری کمپنیوں کے مالدار صارفین ـ جن کی اکثریت کا تعلق آل سعود سے ہے، وہی جو جبہۃ النصرہ کو مالی امداد فراہم کررہے ہیں ـ کو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ کہ اس تنظیم کی تباہ کن اور المناک غیر انسانی پالیسیوں کی دستاویزات کی اصلاح کرنا، انہیں تبدیل کرنا یا مٹانا ممکن نہیں ہے۔ اگر بعض لوگوں کے لئے آج تک اس حوالے سے کوئی ابہام تھا بھی، ان نام نہاد اعتدال پسندوں کے ہاتھوں ایک بارہ سالہ بچے کا سر قلم کرنے کے دل دہلا دینے والے مناظر نے ان کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا۔

11ستمبر کے واقعات سے لے کر آج تک، جنگ پسند وہابیت نے کئی بار بھیس بدل دیا ہے لیکن ان کی آئیڈیالوجی اور بنیادی نقطہ نگاہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، خواہ وہابیت کے یہ پیروکار طالبان ہوں، خواہ القاعدہ کی باز تخلیق شدہ فروعات ہوں یا خواہ نہاد اسلامی حکومت کے عناصر [داعشی] ہوں جو نہ تو حکومت ہے اور نہ ہی اسلامی۔  کروڑوں انسان ـ جنہوں نے جبہۃالنصرہ کی قساوتوں اور سنگ دلیوں کو سہہ لیا ہے، القاعدہ سے اس کی علیحدگی کو باور نہیں کریں گے۔ ماضی کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جبہۃالنصرہ کی تطہیر و تنزیہ کی کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ شام میں سرگرم عمل جبہۃ النصرہ کو بھیجی والی مالی اور عسکری امداد کی ترسیل ـ جو قبل ازیں خفیہ طور پر انجام پاتی تھی بعد ازیں ـ اعلانیہ طور پر انجام پاسکے اور حتی کہ بعض مغربی ممالک کو وسوسہ دلایا جائے کہ وہ اس نام نہاد اعتدال پسند ٹولے کی حمایت کریں۔ حلب میں حکومت شام کے مخالفین کے اتحاد میں النصرہ کی غالب شمولیت ایسی حقیقت ہے جو اس تشہیری مہم کو خود بخود ردّ کردیتی ہے۔

مغربی آقاؤں کو اپنی کوتاہ بینانہ پالیسیوں کی حمایت پر آمادہ کرنے کی سعودی کوشش باطل بنیادوں پر استوار ہوئی ہے؛ سعودی مغربیوں کو قائل کرنا چاہتے ہیں کہ اگر عالم عرب کو فتنوں اور جنگ و جدل سے دوچار اور غیر مستحکم کیا جائے تو اس سے اسلامی جمہوریہ کو نقصان پہنچے گا! یہ ایک توہّم ـ کہ خطے کا عدم استحکام ایران پر "قابو پانے" کا سبب ہوگا ـ یا پھر شیعہ اور سنی کے درمیان دشمنی کا دعوی، ـ جس کے بہانے انھوں نے کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے ـ اس حقیقت سے متصادم ہے کہ ہمارے علاقے میں المناک ترین خونریزیوں کا تعلق وہابیوں کے ہاتھوں ہمارے عرب اور سنی بھائیوں کے قتل عام سے ہے۔ انھوں نے اس خطے میں زیادہ تر سنیوں کا قتل عام کیا ہے۔

ایسے حال میں کہ انتہاپسند دہشت گرد اپنے آقاؤں کی مدد سے عیسائیوں> یہودیوں، ایزدیوں، شیعوں اور ان کے بقول دیگر "مرتدین" کے قتل عام میں مصروف ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ خطے کے سنی عرب ہیں جنہیں نفرت کے اس برآمدی تفکر سے سب سے بڑھ کر نقصانات برداشت کرنا پڑے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں شیعہ اور سنی کے درمیان موہوم اختلاف کا موضوع زیر بحث ہی نہیں ہے بلکہ آج وہابیت اسلامی کی حقیقی شریعت کے مد مقابل آکھڑے ہوئے ہیں اور جنگ وہابیت اور اسلامی شریعت کے درمیان جاری ہے؛ ایسا تنازعہ جو خطے اور دنیا کے دوسرے علاقوں پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 2003 میں امریکہ کی سرکردگی میں عراق پر حملہ، آج کے تناز‏عات اور جنگوں کا سبب بنا اور اسی جنگ کی وجہ سے یہاں کے جھگڑوں میں شدت آئی ہے؛ تاہم تشدد کا اصل سبب نفرت انگیز وہابی تفکر ہے؛ جس کو سعودی حکومت کی ہمہ جہت حمایت حاصل ہے۔ اگرچہ مغربیوں نے 11 ستمبر 2001 تک اس حقیقت کو لائق اعتنا نہیں سمجھا تھا۔

ریاض کے شہزادے خطے کو صدام کے دور میں پلٹانے کی ناکام کوششوں میں مصرف ہیں؛ وہی دور جس میں ایک ظالم و جابر اور کٹھ پتلی ڈکٹیٹر خطے کے عرب اور خَیالی پلاو پر خوش ہونے والے مغربی حکمرانوں کی مالی و معاشی مدد و حمایت سے ایران کے خیالی خطرے کا مقابلہ کررہا تھا۔ لیکن انہیں ایک مشکل کا سامنا ہے اور وہ یہ کہ صدام برسوں قبل مر چکا ہے اور زمانے کی گھڑی کو پیچھے کی طرف پلٹایا نہیں جاسکتا۔ اب انہیں اس حقیقت سے سمجھوتہ کرنا چاہئے اور جس قدر جلد سمجھوتہ کریں گے، ان کے لئے بہت مفید ہوگا۔ ہمارے خطے کے حقائق حتی کو ریاض کو بھی قبول کرسکتے ہیں لیکن اس کے لئے انہیں اپنی موجودہ پالیسیاں اور نقطۂ نظر تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

تبدیلی سے کیا مراد ہے؟ گذشتہ تین عشروں کے دوران ریاض نے ہزاروں مدارس اور مساجد کے ذریعے پوری دنیا میں وہابیت برآمد کرنے کے لئے دسوں ارب ڈالر خرچ کئے ہیں؛ ایشیا سے افریقہ اور یورپ سے امریکہ تک، اس منحرف عقیدے نے عظیم ویرانیوں اور تباہیوں کو جنم دیا ہے۔ جیسا کہ ایک سابقہ دہشت گرد نے کوزووا میں نیویارک ٹائمز سے کہا کہ "سعودیوں نے اپنی دولت خرچ کے بلقان کے علاقے میں اسلام کا چہرہ مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے"۔

گوکہ مسلمانوں کا بہت ہی مختصر سا حصہ وہابیت کی طرف مائل ہوا ہے لیکن اس کے اثرات بہت زیادہ تباہ کن رہے ہیں۔ تقریبا تمام کے تمام دہشت گرد ٹولے ـ جو اسلام کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں [القاعدہ سے لے کر شام میں فعال اس کی شاخوں، اور نائیجریا میں بوکوحرام تک] وہابیت کے مہلک فرقے سے متاثر ہیں۔

سعودی آج تک "ایران کارڈ" استعمال کرکے اپنے حلیفوں کو شام اور یمن میں اپنی بےعقلیوں کا ساتھ دینے پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں، یہ صورت حال بلا شک بدل جائے گی کیونکہ آج جنگ طلب انتہا پسندی اس سعودی دعوے کے بطلان کو ثابت کرچکی ہے کہ "آل سعود کی حکومت علاقے میں استحکام کا سبب ہے"

دنیا مزید یہ برداشت نہیں کرے گی کہ وہابیوں کے ہاتھوں عیسائیوں، یہودیوں اور شیعوں ہی کا نہیں بلکہ اہل سنت کا قتل عام بھی بدستور جاری رہے۔ ایسے حال میں کہ مشرق وسطی کے بہت سے علاقوں کو آشوب بلوؤں نے آ لیا ہے، اور یہ عظیم خطرہ بہرحال موجود ہے کہ وہ چند علاقے بھی وہابیت اور اہل سنت کے درمیان جنگ کی لپیٹ میں آکر غیر مستحکم ہوجاغیں جو ابھی تک اس سے محفوظ رہے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ میں نفرت اور انتہا پسندی پر مبنی افکار کی مالی امداد کے انسداد کے لئے ہمآہنگ اقدامات انجام پاچکے ہیں اور عالمی برادری کو دہشت گردوں تک رقم اور ہتھیار پہنچانے والے راستوں اور چینلوں کا کا سراغ لگانے کے لئے فعال تر کردار ادا کرنا چاہئے۔ سنہ 2013 میں ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے بھی نے تشدد اور انتہاپسندی سے خالی دنیا کے قیام کی تجویز پیش کی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ اسی بنیاد پر ادیان اور و مذاہب کے درمیان وسیع مکالمے کا انتظام کرکے اس خطرناک قرون وسطائی عصبیت کا مقابلہ کرنے کے لئے اقدام کرے۔

فرانس کے شہروں نایس اور پیرس اور بلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والے حالیہ حملوں کے بعد مغرب کو اس حقیقت کے قائل ہونا چاہئے کہ وہابیت کے زہریلے خطرے سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ گذشتہ ایک سال کے بعد ـ جس کا ہر دن مختلف المیوں سے بھرپور تھا ـ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری وہابیت کے کرتوتوں سے نفرت و بیزاری اور تشویش کے اظہار یا نشانہ بننے والے انسانوں کے خاندانوں کو تعزیتب کہنے سے بڑھ کر اقدام کرنا چاہئے۔ جس چیز کی اس وقت ہمیں ضرورت ہے وہ انتہا پسدی کے خلاف عملی اقدام ہے۔

اگرچہ اسلام کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھا کر تشدد آمیز کاروائیوں کی جڑیں وہابیت میں پیوست ہیں، لیکن میں ہرگز یہ تجویز نہیں دینا چاہتا کہ سعودی عرب راہ حل کا حصہ نہیں بن سکتا، بلکہ اس کے برعکس، ہم سعودی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تہمتوں، الزامات اور خوف و ہراس پھیلانے کی پالیسی ترک کریں اور دہشت گردی اور تشدد کی آفت ـ جو ہم سب کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہے ـ کے خاتمے کے لئے عالمی برادری کے ساتھ تعاون کریں"۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری