ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے لئے منڈی بھی ہیں اور گذرگاہ بھی


ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے لئے منڈی بھی ہیں اور گذرگاہ بھی

ایران اور پاکستان دونوں ایک دوسرے کے لئے منڈی بھی ہیں اور اس کے ساتھ ہی گذرگاہ بھی۔ ایران کو بھارت یا چین پہنچنے کے لئے زمینی راستہ پاکستان فراہم کرسکتا ہے جبکہ پاکستان کو ترکی، آذربائیجان، آرمینیا سے ملانے والا ملک ایران ہی ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کو ارسال کئے گئے اپنے کالم "ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے لئے ناگزیر" کے دوسرے حصے میں معروف تجزیہ کار عرفان علی دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات بڑھانے پر زور دیا ہے۔

انہوں نے اپنے کالم میں کہا ہے کہ پاکستان ایران تعلقات کا ایک اور شعبہ اقتصادیات کا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی اپنا پہلا سرکاری دورہ مارچ میں کرچکے ہیں۔ اس دورے سے جو پاکستانی طبقہ سب سے زیادہ خوش اور پرامید ہوا وہ پاکستان کے تاجر اور سرمایہ کار ہیں۔ اس دورے کے بعد جون کے آخری ہفتے میں پاکستان ایران مشترکہ ایران تجارت و صنعت راولپنڈی میں قائم ہوچکا ہے۔ ایرانی سفیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ دونوں ملکوں کے مابین تعاون بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ تہران اور اسلام آباد کے مابین براہ راست فضائی رابطہ ہو۔ اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ کراچی اور لاہور سے تہران اور مشہد کی فلائٹس ہوتی ہیں۔ اسلام آباد سے کوئی پرواز تہران نہیں جاتی اور نہ ہی وہاں سے اسلام آباد آتی ہے۔ اس لئے تاجروں اور سفارتکاروں کی سہولت کے لئے یہ پرواز بھی ضروری ہے۔ پاکستان کے ایوان تجارت و صنعت کے صدر رؤف عالم نے پاکستان، ایران مشترکہ کاروباری کاؤنسل کے اجلاس سے خطاب میں بہت ہی اچھی تجویز دی کہ اچھے مواصلاتی لنکس اور براہ راست کارگو فلائٹس ہونی چاہئیں۔ انہوں نے حکومت کو یہ تجویز بھی دی کہ ایران سے 5000 میگاواٹ بجلی خریدی جائے جس پر کل ڈیڑھ بلین ڈالر کی لاگت آئے گی لیکن اس بجلی سے صنعتی پیدوار میں انقلاب آجائے گا اور ایک سال میں ہی بجلی کی قیمت ادا ہوجائے گی۔ جن دو نئی سرحدی گذرگاہوں کا تذکرہ کیا گیا، اس پر معاہدہ بھی صدر روحانی کے دورے کے دوران ہوا تھا اور اسے اسلام آباد ایوان تجارت و صنعت کے صدر نے خوش آئند قرار دیا تھا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا مؤقف ہے کہ امریکا کی جانب سے ایران پر پابندی عملی طور پر ابھی اٹھائی نہیں گئی لہٰذا ایران سے تجارت کیلئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) ڈالر کی بجائے یورو میں جاری کیا جائے گا یعنی ایران سے پاکستان کی تجارت یورو کرنسی میں ہوگی۔ ڈالر میں ایل سی کے لئے امریکیintermediary بینک سے کلیئرنس لینا ضروری ہے جو امریکی بینک جاری نہیں کررہا۔

صدر روحانی کے دورہ پاکستان کے بعد ایران کے مرکزی بینک کے سربراہ نے کہا تھا کہ ایران کے سرکاری بانک ملی کو پاکستان میں شاخیں کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔ ایران کے مرکزی بینک کے اکاؤنٹس پاکستان کے مرکزی یعنی اسٹیٹ بینک میں کھولے جائیں گے اور ایران ایشین کلیئرنگ یونین کو جوائن کرلے گا۔ ایران اور پاکستان کی مشترکہ بینکنگ کمیٹی قائم ہوگی جس میں ایران اور پاکستان کے متعدد بینک شامل ہوں گے۔ ان کے مطابق، چار پاکستانی بینک ایران میں اپنی شاخیں کھولنے کے لئے بے تاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوئفٹSWIFT  سسٹم بھی تیار ہے اور معاہدہ ہوجانے پر دونوں ملک بینک کریڈٹ کارڈز کے لئے اپنے قومی سوئچنگ سسٹم استعمال کرسکیں گے اور دونوں ملکوں کے شہری اے ٹی ایم کارڈ بھی استعمال کرسکیں گے۔ ٹیکنیکل کام کی تکمیل کے لئے ایران کے آئی ٹی ماہرین پاکستان کا دورہ کریں گے۔ دو طرفہ تجارت کے لئے بینکاری کی سہولیات ناگزیر ہیں اور اس ضمن میں اب تک کیا کام ہوا ہے، کامرس رپورٹرز اور خاص طور پر جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان کی وفاقی وزارت خزانہ و تجارت کی رپورٹنگ کرتے ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ اس پرقارئین و ناظرین کو اپ ڈیٹ کریں کہ یہ کام تاحال ہوا یا نہیں اور کب تک پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔

پاکستان اور ایران کی موجودہ حکومتوں نے دوطرفہ تجارت کا حجم 5 بلین ڈالر تک بڑھانے کی بات کی ہے۔ موجودہ حجم ایک بلین ڈالر سے بھی کم ہے۔ لیکن یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں پاکستان نے ایران کے ساتھ 10 بلین ڈالر سالانہ دوطرفہ تجارت کی بات کی تھی۔ جبکہ اس وقت بھی میں نے یہ رائے پیش کی تھی کہ جب ایران و ترکی 15 بلین ڈالر سالانہ تجارت کررہے تھے تو پھر پاکستان اور ایران کیوں نہیں کرسکتے۔ جی ہاں، پاکستان کو ایران کے ساتھ سالانہ پندرہ ارب ڈالر کی تجارت کا سوچنا ہوگا۔ پاکستان کے چاول اور کینو کی طرح آم، کپاس، ٹیکسٹائل مصنوعات بھی امریکا یا یورپی مارکیٹ کی بجائے ایرانی مارکیٹوں کی زینت کیوں نہ بنے۔ لائیو اسٹاک میں بھی ایران ایک اچھی منڈی ہے اور زرعی اجناس میں بھی۔ ایران اور پاکستان دونوں اپنی اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کریں تاکہ عوام کو معلوم ہو کہ ہم ایران سے کیا خرید سکتے ہیں اور اسے کیا بیچ سکتے ہیں۔

ایران اور پاکستان دونوں ایک دوسرے کے لئے منڈی بھی ہیں اور اس کے ساتھ ہی گذرگاہ بھی۔ ایران کو بھارت یا چین پہنچنے کے لئے زمینی راستہ پاکستان فراہم کرسکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ ہمارا معاملہ مختلف نوعیت کا ہے۔ پاکستان کو ترکی، آذربائیجان، آرمینیا سے ملانے والا ملک بھی ایران ہی ہوگا اور اگر افغانستان کے ساتھ کشیدگی ختم نہیں ہوتی تو ترکمانستان تک پہنچنے کا بھی متبادل محفوظ راستہ ایران فراہم کرسکتا ہے۔ چین کی جو کارگو ٹرین دو وسطی ایشیائی ممالک سے گذر کر ایران پہنچی، اگر پاکستان چین تک ریلوے لائن بچھا دیتا ہے تو یہی کارگو ٹرین پاکستان کے راستے بھی گذر سکتی ہے۔ جس طرح ایران چابہار میں پاکستان اور چین کو سرمایہ کاری کی سہولت دینے پر آمادہ ہے، پاکستان بھی سی پیک میں ایران کو ساتھ ملا سکتا ہے۔

ریلوے نظام سے منسلک کرنے کے لئے پاکستان کو ایک نئی ریلوے لائن بچھانے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان کی ریلوے برطانوی سامراج نے بچھائی تھی جبکہ ایران میں سوویت یونین کی بچھائی ہوئی ریلوے لائن ہے جو پاکستان کی ریلوے لائن کی نسبت کم چوڑی ہے۔ لہٰذا کارگو ٹرین پاکستان سے ترکی تک بذریعہ ایران موجودہ بوگیوں کے ذریعے پہنچانا ممکن نہیں۔ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ سڑک کا راستہ موجود ہے اور دونوں ملک چین کو ساتھ ملا کر ایران کے اندر ترکی تک پہنچنے کی نئی تجارتی سڑک بھی بناسکتے ہیں۔ اس طرح چین کو دو ملکوں کی بجائے ایک ہی ملک پاکستان کے ذریعے ایران تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ پاکستان نہ صرف ترکی کے راستے یورپ کے دیگر ممالک تک رسائی حاصل کرسکتا ہے بلکہ ایران کے راستے وہ روس تک بھی رسائی حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔

پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں خواہ وہ اسٹرٹیجک، دفاعی یا عسکری ہو یا تجارتی و ثقافتی ہو، ایران کو مائنس کر ہی نہیں سکتا اور اسی طرح ایران بھی پاکستان کے غیرت مند مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا جو صہیونی دہشت گرد جعلی ریاست اسرائیل سے اسی طرح نفرت کرتے ہیں جیسے ایران کے انقلابی۔ تو یہ ایک قسم کا نظریاتی اتحاد بھی ہے۔ پھر یہ کہ ایران کے لئے پاکستان فلم اور ڈرامہ کے شعبوں میں بھی ایک اہم ملک ہے۔ پاکستان میں اچھے ڈرامے اور فلمیں بن نہیں رہے، زیادہ تر بور آئیڈیاز ہیں اور پاکستان کی ثقافت کے بھی خلاف، اس کے علاوہ بھارت اور ترکی کے ڈراموں اور فلموں نے اجنبی ثقافت کو فروغ دیا ہے جس سے پاکستانیت کہیں چھپ کر رہ گئی ہے۔ ایران کے ڈراموں اور فلموں میں کم از کم اسلامی ثقافت تو موجود ہے۔ اداکارائیں حجاب کرتی ہیں۔عریانیت نہیں ہوتی۔ ایران کے ڈراموں اور فلموں کا آئیڈیا یہاں کی نسبت زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ رمضان میں ایران کی ڈرامہ سیریل صاحبدلان کی اردو ڈبنگ بعض پاکستانی چینلز نے نشر کی تو بہت پسند کی گئی۔ بہت سے ایسے ڈرامے اور فلمیں ہیں جن کا اردو ترجمہ کیا جائے تو اس سے ایران اور زیادہ پاکستانیوں کے دلوں میں چھاجائے گا۔ خاص طور پر انقلاب اسلامی ایران پر بنائے گئے ڈرامے یا ایران کی سیاسی تاریخ پر۔ جیسا کہ پدر خواندہ، معمہ شاہ، تبریز در مہ، ایران کی سیاسی تاریخ کے مختلف ادوار پر بنائی گئیں ڈرامہ سیریل تھیں۔ ایک ڈرامہ سیریل از نفس افتادہ تھی جس میں انقلاب ایران کے لئے جدوجہد کرنے والوں کا ایک پہلو اجاگر کیا گیا ہے۔ ایسی بہت سی ڈرامہ سیریل ہیں جس سے ایران کے مشکل حالات سمجھنے میں مدد ملے گی اور پاکستانیوں کو معلوم ہوگا کہ ایرانیوں نے کیا قربانیاں دیں تو انقلاب آیا۔ اگر اس ضمن میں بھی باقاعدہ معاہدہ ہوجائے تو پاکستانی چینلز پر ایرانی ڈرامے اور فلمیں پیش کی جاسکیں گی۔

کلبھوشن نامی بھارتی جاسوس کے پکڑے جانے پر پاکستان ایران دوستی کے مخالفین نے الزامات کی جنگ میں ایران کو گھسیٹنے کی کوشش کی تھی تو پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کروانے میں ایران کے کردار کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا اور یہ معاملہ بھارت سے متعلق ہے۔

ایران کے خلاف الزامات و مفروضوں کی جنگ کے پیچھے وہی تیسرا فریق ہے جس کی نشاندہی ایرانی نائب وزیر خارجہ نے کی۔ یقیناً امریکا اور سعودی عرب پاکستان اور ایران کے دوستانہ تعلقات اور قربتوں کو پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا پاکستان کی ہیئت مقتدرہ کو اتفاق رائے سے ایک متوازن قابل عمل پاکستان دوست خارجہ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنے پڑوسی ملک ایران کو سعودی و امریکی مفادات پر قربان کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، ایران کا نقصان پاکستان کا نقصان ہے اور پاکستان کا نقصان ایران کا نقصان ہے اور حقیقت میں یہ دونوں ملک ہی حقیقی معنیٰ میں ایک دوسرے کی اسٹرٹیجک گہرائی ہیں۔ ایران پاکستان تعلقات کومضبوط و پائیدار بنیادوں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو سیشن ملاقاتوں اور مذاکراتوں کی بجائے ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

ایران کی حکومت کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان میں طاقت کا ایک مرکز فوج ہے۔ اس لئے سیاسی حکومتوں سے اچھے تعلقات کے ساتھ ساتھ ایران کو جی ایچ کیو سے بھی اچھے تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ یہ تعلقات اس وقت مثالی کہلائیں گے جب پاکستان کی فوج اور ایران کے سپاہ پاسداران کے مابین اسٹرٹیجک معاہدہ ہو۔ جس طرح ایران کے شام کے ساتھ تعلقات ہیں، ویسے پاکستان کے ساتھ ہوجائیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اچھے تعلقات۔ پاکستان کی فوجی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ ایران ہے کہ جہاں امریکا کے ڈرون تباہ کئے گئے یا پکڑے گئے۔ جہاں امریکا کا ایف 18جنگی طیارہ اتار لیاگیا اور جہاں ایران کی بحریہ سے امریکی بحریہ دور رہنے پر خود کو مجبور پاتی ہے۔ جبکہ پاکستان کو دوست کہنے کے باوجود پاکستان کے فوجی بھی مارتی ہے اور دنیا بھر میں پاکستا ن کا میڈیا ٹرائل بھی کرتی ہے۔ پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کے لئے یہ مناسب وقت ہے کہ وہ سعودی و امریکی تعلقات کی وجہ سے پاکستان کو پہنچنے والے نقصانات پر غور کریں۔ کیا ڈیڑھ ارب ڈالر سے سعودی عرب نے ہمیں ایران کی گیس سے حاصل ہونے والے اربوں ڈالر کے فوائد سے محروم نہیں کررکھا۔ کیا امریکا کی خیرات نے ہمیں ایران کی سستی بجلی و سستی گیس سے محروم کرکے ہمارے ملک کی صنعتی پیداوار کا بیڑہ غرق نہیں کردیا۔ ذرا سوچیں کہ ایرانی گیس سے پاکستان کی 35 فیصد مقامی معیشت چل پڑتی۔ ذرا سوچیں کہ ایران سے 5000میگاواٹ سستی اور فوری بجلی نہ لینے سے جو بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوئی اس نے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے؟ سعودی عرب نے بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک اتحادی بنالیا ہے اور پاکستان نے سعودی عرب کی وجہ سے ایران سے ایک سرد جنگ کی سی کیفیت پیدا کرلی تھی۔ ہم پاکستانیوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ دنیا میں وہ واحد ہستی جو پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر ایرانیوں سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئی وہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای تھے۔ بقول ڈاکٹر علی اکبر ولایتی کے انہوں نے کبھی ایسی اپیل کے وقت رہبر معظم انقلاب اسلامی کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے جو پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر دیکھے۔ ایران نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد جو مدد کی اس کے ہم چشم دید گواہ بھی ہیں اور اس ایرانی امداد کے مقابلے میں دیگر امداد ناکافی دکھائی دیتی تھی۔ ایرانی مدد میں خیمہ سے لے کر برتن تک اور کھانے پینے کے سامان سمیت بہت کچھ سیلاب زدگان کو فراہم کیا گیا اور ہمارے علاقے میں تو اراکین اسمبلی نے بھی ایران سے مدد طلب کی کہ ان کے حلقے کے عوام کو وہ خود ایرانی امداد پہنچانے کے کام میں آگے آگے تھے۔ ایرانیوں کو معلوم ہو کہ پاکستانی ان کی مدد پر آج بھی ممنون ہیں اور ہم بھی انہیں یقین دلاتے ہیں کہ جس طرح بم شہر میں زلزلے پر ہم بھی ایرانیوں کی مانند غمزدہ تھے اور پاکستانی حکومت نے ایران کوبھی امدادی سامان بھیجا تھا اسی طرح آئندہ بھی یہ جذبہ جاری رہے گا۔

ترقی پاکستان کا انتظار کررہی ہے۔پاکستان کی ہیئت مقتدرہ نے پھر امریکی و سعودی لولی پوپ پر تکیہ کرلیا تو یہ مواقع ہر مرتبہ دستیاب نہیں ہوں گے۔چین ایران کے ساتھ 600بلین ڈالر کی تجارت و سرمایہ کاری کا اعلان کرچکا ہے اور آپ 35بلین ڈالر پر ہی روزانہ سی پیک کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔چین نے ترکی کے ساتھ 100بلین ڈالر تجارت کا اعلان کیا ہے تو کیا چین پہلے پاکستان آئے گا اور یہاں سے اتنا طویل سمندری سفر طے کرکے پہلے بحیرہ احمر اور سوئز کینال سے ہوتا ہوا بحیرہ متوسط (روم) میں داخل ہوکر ترکی تک پہنچے گا؟ یا ترکی تک براستہ ایران پہنچے گا جس پر خرچہ بھی کم ہوگا اور کم وقت میں یہ سفر طے ہوجائے گا ؟ یہ سوال دفتر خارجہ کے ماہرین کے لئے بھی ہے اور وزارت تجارت کے لئے بھی کہ اس خطے میں ترقی کے لئے جس راہ کا انتخاب دیگر حکومتوں نے کیا ہے، پاکستانی قیادت اس راہ سے کیوں گریزاں ہے؟ پاکستان کی قیادت کے پاس وژن ہے تو ایران سے چین تک گیس پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ طے کریں اور ایران سے ہی پاکستان کے بالائی علاقوں کے لئے گیس خریدیں۔ایران سے جو گیس پائپ لائن منصوبہ طے ہوچکا ہے ، اب اس کی تکمیل بھی کرلیں اور جلدی سے پائپ لائن بچھائیں تاکہ پاکستان اس گیس سے سستی بجلی حاصل کرے اور اپنی صنعتوں کو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کرنے کے قابل ہوجائے۔چین تک گیس پائپ لائن جائے گی تو پاکستان ٹرانزٹ فیس کی مد میں چین سے کروڑوں ڈالر ز کماسکے گا۔

پاکستان ایران ایک دوسرے کے لئے ناگزیر ملک ہیں ۔دونوں کا دفاع اور دونوں کی تعمیر و ترقی کے لئے مستحکم تعلقات بھی ناگزیر ہیں۔عسکری و سیاسی قیادتوں کے مابین بھی براہ راست تعلق ہونا چاہئے اور دونوں کو ایک دوسرے کی ریڈ لائنزکا بھی احترام کرنا چاہئے۔دونوں ملکوں کی قیادتیںD-8اور ECOکو فعال بنائیں اور علاقائی تعاون کو بھی فروغ دیں۔او آئی سی کو سعودی مفادات کی تنظیم بننے سے روکنے کے لئے بھی دونوں کردار ادا کریں۔روس اور چین کے ساتھ شنگھائی تنظیم اور NAM کے ممالک کو اس طرح اپنا ہمنوا بنائیں کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں میں ان کے حق میں سفارتکاری ہو۔ان ملکوں سے تجارتی شعبہ میں زیادہ اچھے تعلقات استوار ہوسکیں ۔خاص طور پر D-8اور ECOایسی علاقائی تنظیمیں ہیں کہ جہاں پاکستان اور ایران عالم اسلام کے دیگر اہم ممالک کے ساتھ تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔بلکہ ایران اور پاکستان کو مل کر ایشیاء کی سطح پر ایک بر اعظمی تنظیم کے قیام کے لئے بھی کوششیں کرنا چاہئیں کہ جس طرح براعظم یورپ اور امریکا کی تنظیمیں ہیں، اسی طرح ایک ایشیاء یونین بن جائے اور یہ ممالک ایک دوسرے کی تعمیر و ترقی میں مدد فراہم کریں تو اقوام متحدہ کی ظالمانہ پابندیاں اور فیصلے بھی مستضعف اقوام کو ترقی کرنے سے نہیں روک پائیں گے۔ خدا کرے کہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے اور دوست دشمن اور فائدے اور نقصان کی تمیز کرے تاکہ پاکستان بھی کم وقت اور کم خرچے میں ترقی حاصل کرسکے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری