پاک - اسرائیل فوجی مشقیں/ کیا عوام، حکومت کو سعودی حکمت عملی اختیار کرنے کی اجازت دیگی؟


پاک - اسرائیل فوجی مشقیں/ کیا عوام، حکومت کو سعودی حکمت عملی اختیار کرنے کی اجازت دیگی؟

تحریک انصاف کے راہنما نے پاک - اسرائیل جنگی مشقوں کو ایک بہت بڑا اسکینڈل قرار دیا اور کہا کہ وطن عزیز کی ایک فیصد عوام بھی اسرائیل کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق، فیاض الحسن چوہان 21 مئی 1970ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام چوہدری عبدالعزیز خاکسار ہے۔  1994ء میں پنجاب یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا۔  2002 ء کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور پنجاب اسمبلی کی سیٹ کے لئے کامیابی حاصل کی ،  آپ قائمہ کمیٹی برائے سوشل ویلفیئر،  ترقی نسواں اور بیت المال کے رکن رہے، بعد  ازاں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔

خبررساں ادارے تسنیم نے پی ٹی آئی راہنما سے ایک مکالمہ ترتیب دیا؛ جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:

تسنیم نیوز: حال ہی میں پاک فوج نے اسرائیل کے ساتھ فوجی مشقیں کیں، اس حوالہ سے کیا کہیں گے؟

فیاض الحسن چوہان: دیکھیں یہی نواز لیگ کی حکومت تھی کہ جس نے پرویز مشرف کے دور میں بیک ڈور چینل سے اسرائیل کو منظور کروانے اور سفارتی تعلق بحال کروانے کے معاملہ کو بہت زیادہ اسکینڈلائز کیا تھا کہ جناب یہ ملک سے، قوم سے، امت مسلمہ سے غداری ہے، مسلمانوں سے غداری ہے، اب جہاں تک تعلق ہے اس خبر کا کہ پاک فوج نے اسرائیل کے ساتھ فوجی مشقییں کیں، اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کی ہے، شیریں مزاری نے اس قرارداد میں کہا ہے کہ وزیر دفاع پارلیمنٹ میں آکر جواب دیں۔ مشترکہ جنگی مشقیں ان ممالک کے ساتھ ہوتی ہیں، جن کے ساتھ تعلقات ہوں۔  ایسی مشقیں ان ممالک کے ساتھ ہوتی ہیں جن کے ساتھ سیاسی، معاشی، تجارتی تعلقات ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کا مشقیں کرنا بہت بڑا اسکینڈل ہے، یہ موجودہ حکومت کے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، امت مسلمہ اور پاکستانی عوام کی دل آزاری ہوئی ہے۔ انہیں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اگر جوابدہی نہیں کریں گے تو ملک و قوم کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے مجرم ہیں۔

تسنیم نیوز: کیا اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کئے جا سکتے ہیں؟

فیاض الحسن چوہان: اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنا صرف آسان ہی نہیں بلکہ خارج از امکان ہے چونکہ پاکستانی بحیثیت مسلمان و پاکستانی سو فیصد اسرائیل مخالف ہیں اور پھر اسرائیل جس طرح مسلسل فلسطینی اور عرب مسلمانوں پر ظلم، جبر، تشدد، استحصال اور استبداد کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں، ایسی صورتحال میں قطعاً ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کی عوام اسرائیل کو تسلیم کر سکے۔ تو یہ پوری طرح طے ہے کہ پاکستانی عوام ایک فیصد بھی اسرائیل کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

تسنیم نیوز: ترکی اور سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کئے، اس بارے میں کیا کہیں گے؟

فیاض الحسن چوہان: ترکی نے تو پہلے بھی اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا  تھا، دو سال قبل طیب اردگان نے فلسطینی مسلمانوں اور غزہ کی پٹی میں انتہائی زیادہ مظالم کے باعث اسرائیل کی جانب سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ سعودی عرب کا ایک وزیر حال ہی میں اسرائیل گیا اور تعلقات باقاعدہ قائم کئے گئے ہیں لیکن اس سے قبل بھی درپردہ سعودیہ اور اسرائیل کے تعلقات چلتے رہے ہیں۔ دوسرے ممالک مصر، مراکش اور دیگر بھی اسرائیل کے ساتھ اندرون خانہ تعلقات چلائی رکھتے ہیں لیکن پاکستان کا مسئلہ ان سب سے بہت مختلف ہے، پاکستان کے مسلمان اسرائیل کو کبھی برداشت نہیں کرتے۔  وہ تب ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو برداشت کریں گے جب فلسطین کو ایک آزاد اور خودمختار ملک مانے۔ بیت المقدس کو بھی مسلمانوں کی سوچ و فکر کے مطابق آزاد کرے۔ اس کے بعد شاید ممکن ہو کہ پاکستانی عوام اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے کے حوالے سے شاید اپنا ذہن بنا سکے۔

تسنیم نیوز: ملیحہ لودھی نے فلسطین اسرائیل دو ریاستی نظریہ دیا، اس قسم کی فکر دے کرکیا قائد اعظم کی روح کو تڑپایا نہیں جارہا؟

فیاض الحسن چوہان: پاکستان کی موجودہ رژیم میثاق جمہوریت کی چھتری تلے امریکیوں کی تشکیل کردہ ہے یعنی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی اور ساتھ ساتھ ان کے حواری الطاف حسین، اسفندیار ولی، محمود خان اچکزئی، مولوی فضل الرحمان یہ سارے لوگ بنیادی طور پر امریکہ کے غلام ہیں، امریکہ کی کٹھ پتلیاں ہیں، یہ وہی بات کریں گے جو امریکہ کہے گا اور امریکی اور یورپین تو چاہتے ہیں کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ تو ملیحہ لودھی نے بھی امریکی غلامی کا فرض ادا کیا ہے لیکن پاکستانی عوام کا مزاج اور طبیعت ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں جب تک بیت المقدس  کی آزادی اور فلسطینیوں کو ان کا حق ان کی امنگوں کے مطابق نہیں دیا جاتا۔

تسنیم نیوز: کیا نواز حکومت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے؟

فیاض الحسن چوہان:  نواز حکومت اس حوالے سے ایک فیصد بھی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی بلکہ وہ راء کے ایجنڈے پر چلتے ہوئے، ان کے ہاتھوں میں استعمال ہوتے ہوئے، وہ حربے آزما رہے ہیں جن کی وجہ سے کشمیر کا اہم ترین مسئلہ پس پردہ چلا گیا ہے۔ مودی کے ساتھ اپنی یاری نبھا رہے ہیں اور کشمیر کے حوالے سے نواز شریف قطعاً اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔ حکومت کو چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی فورمز پر اجاگر کرے لیکن دراصل نون لیگ اور پی پی امریکہ کے ساتھ عہد و وفا کرتے آئے ہیں کہ ہم انڈیا کے ساتھ پیار و محبت سے رہیں گے۔ اسی عہد و وفا کی بدولت انہیں اقتدار کی کنجیاں دی گئی ہیں۔

تسنیم نیوز: پانامہ لیکس کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف نے کیا کردار ادا کیا؟

فیاض الحسن چوہان: پانامہ لیکس کے سلسلے میں ہم نے ہر حوالے سے احتجاج کیا، ہم میپ، سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن گئے۔  اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ریفرنس جمع کرایا، عوام اور میڈیا کے پاس بھی گئے ہیں۔ ہم نواز شریف کو غیرت دلا رہےہیں۔  یوکرائن اور آئس لینڈ میں اگر لوگ مستعفی ہو سکتے ہیں تو نواز شریف کیوں نہیں؟ انڈیا میں نرسیما راؤ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گیا تھا، نواز شریف جو انڈیا کے دلدادہ ہیں، انہی کی روایت کی پیروی کریں اور آزاد اداروں کے سامنے خود کو پیش کریں۔  بیگناہ ثابت ہو جاتے ہیں تو واپس اپنےعہدے پر آجائیں۔

تسنیم نیوز: ایم کیو ایم کے معاملے میں اداروں کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟

فیاض الحسن چوہان: میں سمجھتا ہوں کہ پاک فوج اور رینجرز سیکیورٹی ادارے ہیں۔ بڑی خوبصورتی کے ساتھ ایم کیو ایم کے ایشو کو حل کر رہے ہیں۔ نہ زیادہ جارحانہ اور نہ زیادہ دفاعی۔ کیونکہ اگر جارحانہ طریقہ اپنائیں گے تو مشرقی پاکستان جیسا ماحول بنے گا۔ جو ایم آئی سکس، راء اور دیگر دشمن طاقتیں چاہتی ہیں۔ رینجرز نے ان کو فل پروٹوکول دیا ہوا ہے، این اے 246 ان کو جیت کر دیا ہے، ان کے میئر بھی بنتے ہیں، یہ الیکشن بھی جیت جاتے ہیں، ساتھ ساتھ ان کا زہر بھی نکالا جارہا ہے۔ ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور، بدمعاش اور دہشت گردوں کا بھی آہستہ آہستہ صفایا کیا جارہا ہے۔ باوجود اس کے، پی پی اور ن لیگ کی مکمل پشت پناہی ایم کیو ایم کو حاصل ہے۔ عدالتیں بھی اپنا فرض پورا نہیں کر رہی، ان سب کے باوجود سیکیورٹی فورسز نہایت ہی احسن طریقے سے ایسی طاقتوں کا قلع قمع کر رہی ہیں۔ الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف جو کچھ کہا ہے اس کے بعد ایم کیو ایم پر پابندی لگنی چاہئے۔ آئین کی روشنی میں حکومت پندرہ دن کے اندر اندر ان کے خلاف سپریم کورٹ جانے کی پابند ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو نواز حکومت ایم کیو ایم سے بڑی غدار کہلائے گی۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری