سعودی عرب کے شاہی محل میں اقتدار کی جنگ/ تخت نشین بن نائف ہوگا یا بن سلمان؟


سعودی عرب کے شاہی محل میں اقتدار کی جنگ/ تخت نشین بن نائف ہوگا یا بن سلمان؟

سعودی عرب میں معمول کے برعکس محمد بن نائف، ملک سلمان کی باد شاہی کے دوران تخت کے وارث ٹہرے، اس حد تک کہ ان کی تخت نشینی کی خواہش پر کسی کو بھی شک نہیں تھا لیکن محمد بن سلمان کی بڑھتی ہوئی طاقت نے پچھلے خیالات اور اعداد و شمار کو تبدیل کر دیا ہے.

خبررساں ادارے تسنیم نے روزنامه السفیر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی موت کے بعد سلمان کی بادشاہت کے ساتھ ہی محمد بن نائف سعودی عرب میں عرف عام کے برعکس تخت کے وارث ٹہرے یہاں تک کہ ان کی تخت نشینی کی خواہش پر کسی کو بھی شک نہیں تھا لیکن محمد بن سلمان کی بڑھتی ہوئی طاقت نے پچھلے خیالات اور اعداد و شمار (calculations)کو تبدیل کر دیا ہے۔

اگر ایک دہائی پہلے کی طرف لوٹ کر سودی عرب کے اخبارات کے اوراق پہ نظر دوڑائیں تو جوان سعودی شهزادے محمد بن نایف کا نام کسی بھی آل سعود کے دوسرے شہزادے سے زیادہ اصلاح پسندانہ نقطہ نظر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ چمک رہا تھا۔

بن نائف جو انسداد دہشت گردی کے لئے سب سے بڑے سعودی چیلنج کے طور پر سرگرم تھا، سعودی عرب کی سیاسی خبروں کی شہ سرخیوں میں ورفہرست ہوتا تھا اور ان کے شاہی تخت پر براجمان ہونےکی خواہش پر کسی کو بھی شک تک نہیں تھا۔

بن نائف کی ولیعہدی ماضی کے رسوم و رواج اور روایات کو توڑنے کے برابر

روزنامہ السفیر جس نے اس رپورٹ کو اکانومسٹ سے تلخیص کر کے اقتباس کیا ہے، نے لکھا ہے:

اپریل 2015ء میں بن نائف کو ان کے چچا سلمان بن عبدالعزیز کے تخت نشین ہونے کے چار ماہ بعد ولی عہد مقرر کیا گیا تھا جبکہ یہ تقرری سعودی رواج اور ماضی کی روایات کو توڑنے کے مساوی تھی اس لئے کہ چھ سابقہ بادشاہ جو سب کے سب آل سعود حکومت کے بانی بادشاہ عبدالعزیز کے بیٹوں میں سے تھے اور ان میں سے کچھ جو اب بھی زندہ ہیں تخت اقتدار پہ آنے کے لئے قطار میں انتظار کر رہے تھے.

آخر میں فیصلہ کیا گیا کہ جانشینی اس نسل سے منتقل کردی جائے۔ اس طرح 57 سال کے محمد بن نائف باقاعدہ طور پر ولی عہد بنے۔

گزشتہ سال، بادشاہ سلمان کے بیٹے کے وزیر دفاع اور نائب ولی عہد کے طور پر ان کی تقرری کے بعد سے 31 سالہ محمد بن سلمان کا نام سعودی عرب کے سیاسی منظر نامے میں مشہور ہوا ہے۔

بن سلمان جو سعودی تیل کی آمدنی پر انحصار کم کرنے کا مشن اٹھائے جا رہے ہیں، سیاسی طور پر اپنے چچازاد سے زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں اور مورد توجہ قرار پائے ہیں۔ ملک میں ان کی وسیع اصلاحات کا وعدہ باعث بنا ہے کہ یہ نظریہ کہ سلمان ان کو جانشینی کے لئے تیار کررہا ہے، مضبوط بنتا دکھائی دے رہا ہے.

بن نائف ولیعہدی سے کم عہدے پر راضی نہیں ہوگا

اس بات کے پیش نظر کہ محمد بن نائف نے ماضی میں کئی مشکلات کو جھیل لیا ہے اور کتنی بار قاتلانہ کاروائیوں میں زندہ بچ کے ولیعہدی تک جا پہنچا ہے، نہیں لگ رہا کہ ولی عہد کا عہدہ چھوڑ کر ایک نچلی پوزیشن کو قبول کرنے پر تیار ہو جائے.

سفیر نے وضاحت میں لکھا ہے کہ بن نائف کی پوزیشن 2003ء میں جب القائدہ کا ایک سرغنہ تسلیم ہو گیا تھا، مضبوط ہوگئی تھی اور 2009ء میں بھی ایک قتل کے واقعے میں بچ گیا تھا۔

بن نائف کی بن سلمان کے حق میں دست برداری کے امکانات کا خاتمہ

بن نائف نے اس سال سعودی عرب کی طرف سے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی تاکہ اپنے چچا زاد بھائی کے حق میں دست بردار ہونے کی افواہ اور امکانات پر خاتمے کی مہر ثبت کر دے۔

باوجود اس کے کہ پیش گوئی اور قیاس آرائی سعودی عرب میں ممنوع سمجھے جانے والے مسائل میں سے ہیں لیکن "محل کے اندر سازشوں" کے بارے میں وسوسے لوگوں کے درمیان پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اس کے باوجود کہ دونوں شہزادے بظاہر ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی نشانیوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

بن سلمان کا یمن کے خلاف جنگ کی ذمہ داری قبول کرنے سے فرار

مثال کے طور پر، اس سلسلے میں یمن کی سعودی عرب کے خلاف فوجی کارروائی پر کشیدگی کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ بن سلمان نے وزارت دفاع کے عہدے کو سنبھالنے کے صرف چند ہفتوں بعد ہی یمن جنگ کی کمان کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

یمن کے خلاف جنگ کے ابتدائی دنوں میں بن سلمان نے جنگ کی دانشمندانہ قیادت پر گھمنڈ اور فخر کیا اور جرنیلوں کے ساتھ مختلف اجلاسوں میں شرکت کی۔ یہاں تک کہ اپنی میڈیا ٹیم کے ساتھ کئی مغربی دارالحکومتوں کا دورہ بھی کیا لیکن یمن کے خلاف جنگ میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر جنگ کو ایک اجتماعی کارروائی کا رنگ دینے کی کوشش کی تاکہ اس جنگ کی ذمہ داری کی طرف دوسروں کو متوجہ کر سکے۔

یمن کے خلاف جنگ کے فیصلے سے بن نائف کا عدم اطمینان

اس سلسلے میں امریکہ میں بروکنگز سنٹر کے محققین میں سے "بروس ریڈل" نے کہا کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنگ میں جانے کے لئے بن نائف نےکوئی جلدی نہیں کی اس کے برعکس وہ اس فیصلے سے ناخوش تھا اور دسمبر 2015ء میں انہوں نے الجیریا کا سفر کیا اور ملک میں اپنی ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہاں چند ہفتے گزارے.

دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی بادشاہی محل کے اندر اگرچہ اس طرح کے تعلقات اور اتحاد کو دکھانے کے لئے کوششیں جاری ہیں لیکن جب بن نائف تخت نشین ہوگا تو اس بات کا امکان ہے کہ اپنے چچازاد بن سلمان کو جن عہدوں پر اب وہ فائز ہیں، برطرف کردے.

اس بنیاد پر کہ 80 سال کی عمر کے سلمان جن کی جسمانی اور ذہنی توانائی پر بہت سوں کو شک ہے، کو اپنے بیٹے کی جانشینی کی فکر ہے، چاہتا ہے کہ جلدی سے کوئی کارروائی کرے لیکن یہ کام بعید نظر آرہا ہےکیونکہ آل سعود میں بادشاہ کے بارے میں روایتی طور پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔

بن سلمان کے طاقتور ہونے پر سعودی شہزادے ناراض

اس سے بڑھ کر دوسرے شہزادے جو تخت پہ آنے کے لئے قطار میں ہیں، سعودی عرب میں محمد بن سلمان کے سیاسی طور پرپیشرفت پر ناراض ہیں۔

ایک اور موضوع یہ کہ یمن کے خلاف جنگ اور اقتصادی اصلاحات کے نامناسب اور دشوار نتائج بن سلمان کے کندھوں پر بھاری بوجھ بنتا جارہا ہے.

ملکی اور غیر ملکی سطح پر بن سلمان کے مقابلے میں بن نائف کی مقبولیت

لگتا ہے کہ ولی عہد بن نائف کچھ زیادہ مقبول ہیں۔ مغربی سفارتکار اور سعودی شہزادے  ان کی شخصیت کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور سعودی عوام بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں۔

گزشتہ سال کے بدترین سوانح کے بعد رواں برس مناسک حج ان کی نگرانی میں منعقد ہوا اور حج کے مکمل ہونے کے بعد بن نائف نے اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے تاہم ان کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کا نقطہ نظر صحیح نہیں ہے اس لئے کہ بن نائف کو گذشتہ جنوری میں شیخ نمر کی پھانسی کا اہم مجرم سمجھا جا رہا ہے۔

بن نائف یا بن سلمان میں سے کون تخت نشین ہوگا؟

ان حالات میں لگتا ہے کہ بن نائف اپنے جوان چچازاد بھائی بن سلمان کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہے۔

اور سعودی حکومت ایسی صورتحال میں بنیادی اصلاحات کرنے جا رہی ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان دونوں شہزادوں میں سے کون شاہی تخت پہ براجمان ہوگا۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری