مودی کا شکریہ ادا کرنے پر آیت الله العظمی صافی گلپایگانی کے دفتر کے نام چند اعتراضاتی نکات


مودی کا شکریہ ادا کرنے پر آیت الله العظمی صافی گلپایگانی کے دفتر کے نام چند اعتراضاتی نکات

حضرت آیت الله العظمی صافی گلپایگانی کے دفتر کی جانب سے بھارتی وزیراعظم کی اذان کے وقت چند منٹوں کے لئے خاموشی پر شکریہ ادا کیا گیا تھا، اس پیغام پر کشمیری طلبہ نے تسنیم نیوز کو چند اعتراضاتی نکات ارسال کئے ہیں جو قارئین و صارفین کے پیش خدمت ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، آیت الله العظمی صافی گلپایگانی کے دفتر کی ویب سایٹ میں کچھ دن پہلے ایک پیغام نشر کیا گیا جس میں ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کی اذان کے وقت چند منٹوں کے لئے خاموشی پر معظم لہ  کی طرف سے شکریہ ادا کر دیا گیا تھا۔

حضرت آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپایگانی کے دفتر کے نام ایک کشمیری طلبہ سلیم نقوی نے تسنیم نیوز کو چند اعتراضاتی نکات ارسال کئے ہیں جس کا متن درج ذیل ہے:

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام ادیان کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے اور اس قسم کے اقدامات قابل ستائش ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان  کے حوالے سے کچھ  سیاسی اور اجتماعی حالات معظم لہ کے دفتر تک پہنچا دوں۔

1۔ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی جس کی باگ ڈور جناب مودی کے پاس ہے، ایک انتہائی متعصب جماعت ہے۔ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے بارے میں دشمنی اور نفرت کے سوا کچھ نہیں جس پر تاریخ گواہ ہے۔

اس پارٹی کے جیتنے کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی عمومی حالات بد سے بدتر ہوگئے ہیں۔

ہندوستان میں مذہبی اعداد وشمار کے مطابق، مذہبی اقلیتوں میں اگرچہ اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن معاشی اور اجتماعی صورت حال میں بد ترین حالت بھی مسلمانوں کی ہے۔

مثال کے طور پر مسیحی اور سکھ برادری تعداد کے لحاظ سے مسلمانوں کی نسبت کم ہیں لیکن امکانات اور سہولیات کے اعتبار سے مسمانوں سے بے حد آگے ہیں۔

ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق، اس ملک کی سب سے غریب، ناخواندہ اور نچلی سطح پر زندگی گزارنے والی کمیونٹی مسلمانوں کی ہی ہے اور ہندوستانی جیلوں میں قید افراد کی تعداد میں بھی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

2۔ گزشتہ سالوں میں یورپ سے اسلام دشمنی کی لہر ہندوستان پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے ہندوستانی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے خلاف قسم قسم کی غلط تبلیغات میں مصروف ہیں۔

انسداد دہشت گردی کے بہانے ہندوستانی سکیورٹی فورسز کے توسط سے بغیر کسی جرم و خطا کے متعدد مسلمان جوانوں کو گرفتار کرکے تشدد کیا جاتا رہا ہے، جیسے کہ بعض غیر مسلم ہندوستانیوں نے بھی اس قسم کے ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

بہت سارے واقعات ایسے پیش آئے ہیں جس میں کئی سال جیل میں گزار کر کسی قسم کا جرم ثابت نہ ہونے کے بعد اس ملک کے جوانوں کو رہائی نصیب ہوئی ہے۔

اس قسم کی مسلمان دشمن پالیسیوں میں شیعہ اور سنی کے درمیان کسی قسم کی کوئی تمیز یا فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ بطور مثال، ایک ہندوستانی شیعہ مسلمان رپورٹر کو یہ کہہ کر پابند سلاسل کیا گیا کہ وہ اسرائیلی سفارت پر ہونے والے حملوں میں ملوث ہے۔

3۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی دردناک ترین مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ وہ متعصب ترین ہندوؤں کے حملوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور ہندوؤں کو بھارتی حکومت کی بلواسطہ یا بلا واسطہ مدد ملتی رہتی ہے۔

ہندوستان میں ایک ایسی قانون سازی کی گئی ہے جس کے مطابق گائے کو ذبح کرنا اور اس کا گوشت کھانا جرم قرار دیا گیا ہے حتیٰ مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی یہ قانون نافذ العمل ہے۔

اس قانون کو بہانہ قرار دیکر مسلمانوں پر متعدد بار جان لیوا حملے کئے جاتے رہے ہیں اور گزشتہ مہینوں کے دوران متعدد مسلم گھروں پر گائے کے گوشت رکھنے کے شبہے میں حملے کئے گئے ہیں۔

اس بارے میں سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی تصاویر اور فلمیں موجود ہیں کہ مسلمانوں پر بغیر کسی خوف کے تشدد کرکے ظلم کے پہاڑ توڑے جارہےہیں، مسلمان نوجوان قتل ہورہے ہیں۔ 

ظلم وبربریت کی اصل وجہ اور بہانہ گائے کا گوشت ہی ہے اور کچھ نہیں۔

4۔ مودی حکومت نے ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کے پرانے دشمن یعنی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں خاطر خواہ اضافہ کرکے ہر قسم کے سیاسی، فوجی اور اقتصادی معاہدے کئے ہیں۔

بھارتی حکام کی ایک بڑی تعداد نے اسرائیل کے کئی دورے کئے اور کرتے ہیں، اب خود جناب مودی بھی اسرائیل کے دورے کی تیاریوں میں مصروف ہے جس کی وجہ سے دنیا کے مسلمانوں کی خدشات میں اضافہ ہورہا ہے۔

5۔ ان تمام ستم ظریفیوں کے علاوہ مقبوضہ جموں و کشمیر ( ملک کی واحد مسلم ریاست) کے مسلمانوں پر کی جانے والی ظلم وبربریت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

بھارت کی مرکزی حکومت نے گزشتہ دو مہینوں کے دوران 90 سے زائد نہتے کشمیریوں کو خاک وخوں میں غلطاں کیا ہے اور ہزاروں کی تعداد زخمی ہیں۔ کشمیر کے ہسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں اور اب مزید کسی ایک زخمی کے لئے جگہ تک نہیں ہے۔

اسی مدت میں سینکڑوں کشمیریوں کی آنکھوں کو چھرے والی بندوقوں کے ذریعے بینائی سے محروم کردیا گیا ہے۔

دوسری جانب، کشمیر میں دو مہینوں سے زائد عرصے سے کرفیو بھی نافذ ہے جس کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

ہزاروں کشمیری جوان اس وقت بھارتی جیلوں میں قید ہیں اور ان پر قسم قسم کے جھوٹےمقدمات دائر کئے گئے ہیں۔

میری گزارش ہے کہ اس طرح کے اقدامات جو دوسرے ملکوں کی صورت حال کے بارے میں بغیر آگاہی اور باخبر افراد سے بغیر مشورت کے کئے جاتے ہیں، گریز کیا جائے کیونکہ اس قسم کے اقدامات سے مرجعیت تشیع کا حسین چہرہ مخدوش ہوجاتا ہے، ایسے مسائل میں حد سے زیادہ دقت اورتوجہ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایسے حساس مسائل بہت جلد عالمی میڈیا کی زینت بن جاتے ہیں۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری