کیا پاکستان دنیا میں اکیلا رہ گیا ہے ؟ سچ کیا اور فسانہ کیا؟


کیا پاکستان دنیا میں اکیلا رہ گیا ہے ؟ سچ کیا اور فسانہ کیا؟

جھوٹ جس بھی ڈھٹائی اور تواتر کے ساتھ بولا جائے فقط ایک حقیقت اس کو رد کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کو ارسال کئے گئے پاکستانی کالم نگار مسعود چوہدری کے تجزئے کا متن مندرجہ ذیل ہے۔

نریندر مودی اپنی الیکشن کیمپین پر ہیں اور انہیں یقین ہے کہ پاکستان کا مسخ شدہ چہرہ ہی انہیں دوبارہ کامیاب کروا سکتا ہے لیکن انڈیا کی عوام جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنا جانتے ہیں۔

جنگی جنون کے زہر میں بجھے ہوئے نشتر ہوں یا معصوم جانوں کا مذموم سیاسی مقاصد کے لئے بہتا خونِ ناحق سیاستدانوں کے ناعاقبت اندیش فیصلوں کا خمیازہ تو ہر دو صورتوں میں جذباتیت کی آندھی میں بہہ جانے والے معصوم عوام کو ہی چکانا پڑتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ پراپوگینڈا کے استعمال میں اس حد تک نہیں جانا چاہئے کہ پھر کبھی واپسی کا راستہ ہی نہ رہے۔

گجرات کے مسلم کش فسادات سے شہرت حاصل کرنے والے نریندر مودی نے جب کیرلا کے ایک انتخابی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی کے طور پر ارشاد فرمایا کہ پاکستان پوری دنیا میں اکیلا رہ گیا ہے تو ہر ذی شعور انسان کی مانند میں بھی فرط حیرت میں گھِر گیا اور قلم اٹھانے پر مجبور ہوگیا کہ حقائق سے پردہ اٹھا سکوں اور جس کامیابی کا تذکرہ جناب فرما رہے ہیں اس کا درست انداز میں تجزیہ اپنے قارئین کے سامنے لا سکوں لیکن اس سے پہلے ایک معصومانہ سا سوال ذہن میں اٹھا کہ؛

کیرلا ہی کیوں؟

اس پراپوگینڈا کے لئے کیرلا کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟ کسی اور اسٹیٹ کا انتخاب کیوں نہیں کیا جا سکا؟ وجوہات جناب یہ ہیں کہ کیرلا ہندوستان کا سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا صوبہ ہے اور دوسرا یہ کہ کیرلا کے باسی سائبر وارفیئر کے ماسٹر لوگ ہیں۔ گوگل اور مائکروسافٹ سمیت تمام ہی انٹرنیشنل سافٹویئر کمپنیاں اس اسٹیٹ میں موجود ہیں۔

یہاں کہا جانے والا ایک ایک حرف چند منٹوں میں پوری دنیا کے تقریباً ہر خاص و عام تک پہنچتا ہے تیسرا یہ کہ چند روز قبل کیرلا کے ہی باسی نے ایئر پورٹ پر پکڑے جانے کے بعد نہ صرف اپنے داعش کے ساتھ تعلق کا انکشاف کیا بلکہ یہ بھی انکشاف کیا کہ اس کے اٹھائیس ساتھی بھی افغانستان میں داعشی ہو چکے ہیں. چوتھی وجہ یہ تھی کہ کیرلا مکمل طور پر ریڈ کوریڈور کے ان علاقوں کے دھانے پر واقع ہے جہاں دلی سرکار کی عملداری عملاً موجود نہیں ہے اور شورش کی طرف گامزن ہے.

ان تمام معاملات کے تناظر کو مد نظر رکھ کر ہی مودی صاحب کے سیاسی بیان کا درست انداز میں تجزیہ کیا جا سکے گاہم ہندوستان پر الزام نہیں لگاتے اور آپ کے ذہن پر اس معاملے کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں کہ اگر آپ کی اسٹیٹ کے لوگ ٹریننگ لینے کے لئے کسی دوسرے ملک جاتے ہیں اور وہاں سے کسی اور مملکت میں کسی اور ملک کے خلاف دہشتگردی کی کارروائیاں کرتے ہیں اور مارے جاتے ہیں تو گلوبل ٹیررازم یعنی بین الاقوامی دہشت گردی کا ارتکاب کون کر رہا ہے؟ اور پھر آپ اسی صوبے کے اسی شہر میں کہ جس سے ان دہشتگردوں کا تعلق ہےآپ تقریر فرماتے ہوئے اپنے جنگی جنون اور اپنے ارادوں کی وضاحت فرماتے ہیں تو اسے اسٹیٹ ٹیررازم یا ریاستی دہشت گردی کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں؟

یہ فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑ کر اپنے موضوع پر واپس آتے ہیں اور تجزیہ کرتے ہیں کہ پاکستان کس ملک کے ساتھ کہاں کھڑا ہے۔

چین کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ و دوستانہ تعلقات اظہر من الشمس ہیں اور ان پر بہت زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے.

ہندوستان کے بڑے بڑے لکھاری بھی یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کا مطلب چین کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنا ہی لیا جائے گا اور ہندوستان کو اس صورتحال سے بھی باخبر رہنا چاہئے کہ پاکستان پر حملہ آور ہونے کی صورت میں چین اچانک ہندوستان پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔

زی ٹی وی سمیت ہندوستان کا دیگر میڈیا اس بات کا بھی معترف دکھائی دیتا ہے کہ افواج پاکستان اور چینی افواج انتہائی زبردست انداز میں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں اور اس بات کے بھی معترف ہیں کہ ہندوستان ان میں سے کسی ایک کا بھی سامنا نہیں کر سکتا اوراس خدشے کا بھی اظہار کرتے پائے جاتے ہیں کہ اگر دونوں ممالک ہی ہندوستان پر جھپٹ پڑے تو اسکا کیا بنے گا؟ یہ دھائیوں پر محیط سحر ہے جس کی ظاہراً نفی تو کی جا سکتی ہے لیکن عملاً باہر نہیں نکلا جا سکتا.

ماضی میں ہندوستان کا دوست سمجھا جانے والا روس بھی اب اس کے ساتھ نہیں کھڑا۔

اس کی تین انتہائی اہم وجوہات ہیں. سب سے اہم تو پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ وارانہ قابلیت ہے اور سرد جنگ کے دور سے پاکستان کی عسکری قیادت اور مسلح افواج کو نزدیکی سےمطالعہ کرنے کے بعد روس معترف ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت دنیا کی بہترین عسکری قیادت ہے اور پاکستانی مسلح افواج دنیا کی نڈر ترین مسلح افواج ہیں. یہی وجہ ہے کہ آج روس اور پاکستان جنگی مشقوں میں مصروف ہیں اور روس پاکستانی مسلح افواج کی پیشہ وارانہ قابلیت سے استفادے کا خواہش مند بھی دکھائی دیتا ہے۔

دوسری انتہائی اہم وجہ روس اور ایران کے مشترکہ مفادات ہیں. جملہ عجیب ضرور ہے لیکن انتہائی اہم ہے۔ روس اور ایران پچھلے دو سال سے شام میں عسکری طور پر شانہ بشانہ نبرد آزماء ہیں.

اور روسی افواج ایرانی جنرل سردار سلیمانی کی کماندر میں نہ صرف نبرد آزماء ہیں بلکہ کامیابیاں بھی حاصل کر رہے ہیں جس پر ماسکو انتہائی خوش بھی دکھائی دیتا ہے اور ایران تمام مسلم دنیا سے داد بھی وصول رہا ہے۔

ایسی صورتحال میں کہ جب اتنی اہم مہم ایک تیسرے ملک میں جاری ہے اور ایران ہمسایہ برادر اسلامی مملکت ہے جس کے انتہائی اہم اور قریبی عسکری و سیاسی تعلقات موجود ہیں اور آنے والے وقت میں روس کے بعد ایران بھی پاکستان کے عسکری تجربات سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا اہم برادر دوسرے برادر اسلامی ملک کو اکیلا ہونے دے. 

جی ہاں غلط فہمیاں بہت سی ہیں اور مذموم انداز میں پھیلائی بھی گئی ہیں لیکن اس کی مختلف وجوہات بھی ہیں ان تمام معاملات کو ایک جانب رکھتے ہوئے ایک جواب میں گفتگو کو سمیٹا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور روس کے تعلقات کے معاملے میں ایران کا کردار بھی قابل غور اور بلا شبہہ انتہائی اہم ہے۔

تیسری اہم وجہ خود ہندوستان کا روس کی جانب بے کلی کا رویہ ہے جس کے نتیجے میں روس نے ہندوستان کی دو مرتبہ پاکستان کے ساتھ جنگی مشقوں کو معطل کرنے کی درخواست کو رد کرنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی. ہندوستان ماضی میں کچھ نہ کچھ ایسا پلین جیب میں رکھتا تھا جس کی مدد سے وہ سفارتی سطح پر روس کو بلیک میل کرنے میں کامیاب رہتا تھا لیکن ہندوستان کے اندرونی معاملات کے پیش نظر روس یہ بات سمجھ گیا ہے کہ پاکستان سے دوستی ہندوستان سے نزدیکیوں سے زیادہ فائدہ مند ہے. اس وجہ سے نہ صرف فوجی دستہ پاکستان آ بھی چکا ہے بلکہ مزید عسکری فوائد کا مطلوب بھی دکھائی دیتا ہے۔

ایران پاکستان کا ایسا برادر اسلامی ملک ہے جس کے ساتھ پاکستانی وزیر اعظم کے انیس سو انہتر سے گہرے تعلقات ہیں اور جس کے بارے میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور ایران کو ایک قوم، ایک ملک اور ایک حکومت سمجھتے ہیں.

حسن روحانی ایرانی صدر کی جانب سے اقتصادی راہداری منصوبہ میں شمولیت سے لیکر پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں کی کوششوں تک یہ سب ہی ایسے معاملات ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کے انتہائی اہم اور برادرانہ تعلقات قائم ہیں۔ جن کی گرمجوشی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

گو کہ بیرونی دنیا ان گہرے تعلقات سے ناواقف دکھائی دیتی ہے جو کہ پاکستان اور ایران کے درمیان موجود ہیں اور ایسی ایسی زبردست غلط فہمیاں دونوں ممالک کے درمیان پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جن پر شیطان بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیتا ہے لیکن اس سب کے باوجود دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان اعتماد بڑھ رہا ہے۔

کچھ تجزیہ نگار خیال کرتے ہیں کہ ایران پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان کے زیادہ نزدیک ہیں. میں انتہائی معذرت کے ساتھ ان تمام تجزیہ نگاروں کو غلط کہنا چاہوں گا اور یہ بھی اطلاع دینا چاہوں گا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوتی ہے جس کے میرے نزدیک انتہائی کم امکانات ہیں تو ایران نہ صرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا بھرپور ساتھ دے گا بلکہ آپ یقین رکھیں کہ ہر ممکن انداز میں پاکستان کی مدد بھی کرے گا.

بلا شبہہ پانی کی گہرائی پانی میں اترنے والا ہی جانتا ہے اور آپ یقین رکھیں کہ اگر پانی سر سے اوپر ہو بھی جائے تو ماہر تیراک اس میں ڈوبنے سے بچ ہی جاتا ہے.

بین الاقوامی تعلقات میں یہ الفاظ بالکل درست ہیں.

افغانستان جیسا ملک جسے ہندوستان نے اپنے ہاں بلا کر ایک ارب ڈالر کی امداد کی نوید سنائی ہے اور پوری دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسکے افغانستان کے ساتھ انتہائی گہرے مراسم ہیں وہ بھی کسی طور پاکستان کے مخالف نہیں جا سک رہا. دنیا کو پراپیگنڈے کے ذریعے سے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش ضرور کی گئی ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہیں اور اشرف غنی کا دورہ بھارت اس پراپیگنڈے کو تقویت بھی دیتا ہے لیکن حقیقتاً صورتحال یہ ہے کہ پاکستان، افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب کروانے میں کامیاب ہو گیا ہے.

گلبدین حکمت یار اور افغان حکومت کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں اور اس امن معاہدہ میں پاکستان اور امریکہ ضامن ہیں اب اگر ضامن کے ساتھ یا دو ضامنوں کے درمیان مراسم تنہائی پرمضمر ہیں تب تو دعویٰ کرنے والے کی عقل پر ہی ہنسا جا سکتا ہے۔ ان تمام معاملات کے علاوہ یہ سرخیاں بھی قابل غور ہیں کہ انڈونیشیاء نے پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں پاکستان کو عسکری ساز و سامان مہیا کرنے کی پیشکش کر دی ہے۔ او آئی سی مقبوضہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی تائید کرتا ہے.

ترکی بہت جلد مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کی تحقیقات اور حقائق معلوم کرنے کے لئے وفد مقبوضہ کشمیر روانہ کرے گا.

نیپال پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے، سری لنکا پاکستان کے موقف کی تائید کرتا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی مظالم کی مذمت کرتا ہے۔

پاکستان بغیر وزیر خارجہ کے ایک مملکت ہے لیکن جس بہتر انداز میں پاکستانی سفارتکاری نے پاکستان کے تمام دنیا سے تعلقات کا احاطہ کر رکھا ہے اس کا بہت سا کریڈٹ افواج پاکستان اور بالخصوص سپاہ سالار اعظم جنرل راحیل شریف صاحب کو جاتا ہے. عرب ممالک کی افواج کی سربراہی سے لے کر امریکہ کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں تک پاکستان ہر مملکت کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کئے ہوئے ہے اور جو پاکستان کو اس دنیا میں اکیلا سمجھ رہے ہیں وہ نہ صرف احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں بلکہ اپنی آنکھوں میں ایسا خواب سجائے ہوئے ہیں جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔

ساتھ ہی ساتھ کلبھوشن یادیو ایک کرنل رینک کے را کے افسر کو پاکستان کے اندرونی حالات خراب کرنے کا ٹاسک دے کر بھیجنے والے اور بلوچستان کے معصوم پاکستانیوں کے ذہنوں میں نفرت کا بیج بونے والے اسٹیٹ ٹیررازم کے بادشاہ نہ جانے کس سوچ کے تحت اپنی عوام کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں.

اگر الیکشن جیتنے کے لئے ہی یہ تمام نفرت پھیلائی جا رہی ہے تو یہ انسانی تاریخ کی وہ سیاہ ترین غلطی ہو گی جس کو مؤرخ ہمیشہ دکھ اور تکلیف کے جذبات کے ساتھ ہی تحریر کرے گا کیونکہ اس نفرت کی گندگی کو صاف کرنے میں نہ جانے کتنی صدیاں درکار ہوں گی ۔۔۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری