ملت تشیع کے آئینی، قانونی، دینی اور بنیادی حق (عزاداری) کو یقینی بنانا حکومت کا فریضہ ہے


ملت تشیع کے آئینی، قانونی، دینی اور بنیادی حق (عزاداری) کو یقینی بنانا حکومت کا فریضہ ہے

معروف شیعہ عالم دین کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کا یہ فرض بنتا ہے کہ ملت تشیع کے آئینی، قانونی، دینی اور بنیادی حق یعنی سرور سالار سید الشہداء علیہ السلام کی عزاداری کے جلوس و مجالس کے دوران امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنائے۔

تسنیم نیوز ایجنسی کے نامہ نگار نے معروف عالم دین و سابق سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم کے پی کے کے ساتھ محرم الحرام کے حوالے سے ترتیب دیا گیا مکالمہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

تسنیم نیوز: پاکستان کے مختلف نکات میں محرم الحرام کو عقیدت و احترام اور پرامن طریقے سے منانے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے؟

علامہ سید محمد سبطین حسینی: قائداعظم محمد علی جناح کے فرامین کی روشنی میں پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے۔ اس فلاحی ریاست میں ہر شہری کو اس کے مذہبی حقوق حاصل ہیں، وہ جیسے چاہے اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں خود مختار ہے۔ ہمارا یہ فریضہ سیدالشہداء علیہ السلام کی یاد یہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں، ہر ذی شعور پر حسین ابن علی علیہ السلام کا احسان ہے۔ لہٰذا حکومت پاکستان کا یہ فرض بنتا ہے کہ ملت تشیع کے آئینی، قانونی، دینی اور بنیادی حق یعنی سرور سالار سید الشہداء علیہ السلام کی یاد میں منعقد ہونے والے عزاداری کی جلوس و مجالس کے دوران امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنائے۔ وطن و دین کے دشمنوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ فرائض منصبی و دینی سمجھ کر عزاداروں کی حفاظت کی جائے۔ اس حقیقیت سے دوست اور دشمن اور حکومت آشنا ہیں کہ عزاداری سید الشہداء علیہ السلام کا ہر صورت میں انعقاد ہو گا۔ حالات جو بھی ہوں اسے ہر صورت میں منایا جائے گا۔ جتنا ظلم ہو، ملت تشیع اور پاکستان میں دیگر مکاتب فکر کے مسلمان عزادری سید الشہداء علیہ السلام  سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔ لہٰذا یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عزاداری سید الشہدا علیہ السلام کے دوران امن و امان کو یقینی بنائیں اور اسے فول پروف سیکیورٹی بھی مہیا کی جائے۔ تاکہ عزاداری مسلمانان پاکستان کی وحدت و اخوت کا ایک ذریعہ بنے۔ خدانخواستہ یہ مسلمانوں میں افتراق و اختلاف کا سبب نہ بنے۔ حسین علیہ السلام محسن انسانیت ہیں ان کی یاد سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ انہوں نے عظیم قربانی دی تاکہ کلمہ لاالااللہ زندہ رہے، اسلام تابندہ رہے، مولا حسین علیہ السلام کے ان احسانات کا بدلہ ہم نہیں دے سکتے۔ جب پوری کائنات اس انداز میں قربانی کا سوچ بھی نہیں سکتی تو اسلامیان پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اخوت کے ساتھ مل جل کر سید الشہداء علیہ السلام کی یاد منائیں۔

تسنیم نیوز: جس طرح پاکستان میں عزاداری پر پابندی کی بات کی جاتی  ہے ایسے ہی بحرین میں آل خلیفہ نے جمعہ نماز پر اور سعودی عرب میں آل سعود نے حج پر پابندی عائد کی، ایسے ظالمانہ اقدامات کے بارے میں کیا کہیں گے؟

علامہ سید محمد سبطین حسینی: یہ ایک شوم مثلث کا ایجنڈا ہے کہ جس کو ہم آل سعود، آل خلیفہ اور آل یہود کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے جو اسلام کے قلب میں خنجر کی مانند ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آل سعود و آل خلیفہ کو اسرائیل کے مظالم یاد نہیں، یہود و ہنود کی سازشیں یاد نہیں بلکہ اس حجاز مقدس میں سب سے پہلے امریکیوں نے سعودیوں کے ناپاک منصوبے کے تحت قدم رکھے۔ حالانکہ ان کفار کے لئے حرم مقدس میں آنا جائز نہیں ہے۔ یمن میں بے گناہوں پر آل سعود کی بربریت جاری ہے۔  ان کے اثاثوں اور بنیادی اسٹرکچر کو تباہ کیا جارہا ہے۔ اسی طرح بحرین کی اکثریتی شیعہ آبادی کے حقوق غضب کئے جارہے ہیں۔ وہ اپنے ہی ملک میں اجنبی ہیں۔ باہر سے لوگوں کو لاکر وہاں بسایا جارہا ہے تاکہ وہاں ابھرنے والے انقلاب کو روکا جاسکے۔  جیسا کہ بیت المقدس میں یہودیوں کو بسایا گیا، ایسے ناپاک منصوبے کے تحت آل خلیفہ نے بھی کوششیں شروع کر رکھی ہیں اور دنیا بھر سے وہابیت کو لاکر بحرین میں بسایا جارہا ہے۔ بحرین کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اسی اثنا شیخ عیسیٰ قاسم کی شہریت منسوخ کی گئی، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ آل خلیفہ و آل سعود کے مظالم یہود سے کم نہیں، وہ بھی بے گناہوں کے قاتل ہیں اور یہ بھی بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں۔ انہوں نے یمن کو تاراج کیا، بحرین کی عزت کو پامال کیا، 20  سالہ بحرینی لڑکی جو اس انقلاب سے متعلق چند اشعار انشاء کرتی ہے، اسے بھی جیل بھیجا جاتا ہے۔ سینکڑوں مؤمنین پر پابندی ، جمعہ نماز پر پابندی، حج پر پابندی، کافر ممالک میں ایسے کام نہیں کئے جاتے۔ یہ سب امریکہ و اسرائیل کی سرپرستی میں ہورہا ہے، یہ جلد اللہ کے انتقام کا نشانہ بنیں گے اور عبرتناک انجام تک پہنچیں گے۔

تسنیم نیوز: زینبیہ اکیڈمی تعلیمی منصوبہ کے بارے میں بتائیے؟

علامہ محمد سبطین حسینی: 2007 سے 2012 تک پاکستان کا اسٹریٹیجک علاقہ جسے کرم ایجنسی کہا جاتا ہے، اغیار کے نرغے میں تھا اور وہاں وطن دشمن، دین و قرآن دشمنوں کے حملے جاری تھے۔ اس میں بہت سارا جانی و مالی نقصان ہو چکا۔ شہادتوں کے بعد شہداء کے گھرانے نہایت مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایسے میں ہمارے کچھ دوستوں نے یہی سوچا کہ وطن و عقیدے کی حفاظت اور شہداء کے خون کو زندہ رکھنے کے لئے ان کے خاندانوں کی خدمت کا ایک احسن اور بہترین طریقہ ان کے فرزندوں کی کفالت ہے۔ اسی سوچ کے تحت زینبیہ اکیڈمی کی ابتداء کی گئی۔

تسنیم نیوز:آخر میں پاک ایران تعلقات کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟ 

علامہ سید محمد سبطین حسینی: دنیا کے ہر ملک کی خواہش ہوتی ہے کہ ترقی کرے۔ حکمران اگر وطن کے ساتھ وفادار ہیں تو ان کی بھی خواہش ہو گی کہ ان کا ملک ترقی کرے۔ ایران کی بڑی خواہش ہے کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ تجارت کرے۔ ایرانی وفود پاکستان آتے ہیں، ان کی یہ ہی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہترین بنایا جائے۔ وہ پاکستان کو ایک برادر اسلامی ملک سمجھتے ہیں۔ پاکستان بھی ایران کو ایک برادر اسلامی ملک سمجھتا ہے۔ میرے  خیال میں دونوں کا مفاد باہمی تعاون میں ہے، بجائے اس کے کہ ہندوستان یا دنیا کا کوئی اور ملک اپنے ارادوں کی تکمیل کے لئے ایران کا رخ کرے، اس اسلامی اور برادر ملک کو چاہیے کہ وطن کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر اسلامی ممالک کے ساتھ بالخصوص ایران کے ساتھ تعاون کو بڑھائے تاکہ ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں۔ ایران نے باربار سستی بجلی دینے کی پیشکش کی ہے اور اسی طرح گیس منصوبے کی تکمیل انتہائی ضروری ہے۔  گیس کی قلت کے باعث ہماری صنعتیں ناکام ہو چکی ہیں۔ تو ضرورت اس امر کی ہے کہ زمینی، سمندری، ہوائی راستوں کو بڑھایا جائے اور اپنے دوست اور ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ تجارت بہتر کی جائے۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری