روس کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے پر یورپی یونین میں اختلافات پر ایک نظر


روس کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے پر یورپی یونین میں اختلافات پر ایک نظر

جرمن اخبار نے شام میں فوجی کارروائی کی وجہ سے روس کے خلاف نئی پابندیوں منظوری کے بارے میں یورپی یونین کے ارکان کے درمیان اختلافات سامنے آنے کی خبر دی ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، جرمن اخبار ٹیگ اشپیگل نے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ یورپی یونین میں روس کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں بحث ہوئی ہے، خاص طور پر پولینڈ اور برطانیہ جیسے مشرقی یورپ کے ممالک، شام میں روسی فوجی نقطہ نظر کی وجہ سے روس کے خلاف تادیبی اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یہ مسئلہ گزشتہ روز لکسمبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس اور اسی طرح رواں ہفتے کے آخر میں برسلز میں منعقد ہونے والے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس دونوں کے ایجنڈے میں ہوگا۔

یوکرائن بحران میںکریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے بعد یورپی یونین نے روس کے خلاف پابندیاں عائد کی تھیں جبکہ یہ یونین اگلے سال جنوری میں پابندیوں میں توسیع کے بارے میں بھی فیصلہ کرے گی۔

یہ ایسے موقع پر ہے کہ شام میں روسی فضائی حملوں اور اسی طرح رواں سال ستمبر کے آخر میں حلب شہر کے قریب اقوام متحدہ کے انسانی امدادی قافلے پر حملہ، جس کا مغرب والے روس کو ذمہ دارٹہرا رہے ہیں، سے متعلق بھی روس کے خلاف مزید پابندیوں کے بارے میں یورپی یونین میں بحث چل نکلی ہے۔

لیکن بظاہر اس بارے میں یورپی حکام اور سیاستدانوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔ اس سلسلے میں جرمن وزیر خارجہ ژاں ایسل بورن نے جرمن اخبار ٹیگ اشپیگل کو بتایا ہے کہ یورپی یونین کے سینئر سفارتکاروں کے آج کے اجلاس کے حتمی اعلامیے میں  روس کے خلاف کسی قسم کی کسی پابندی کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ایسل بورن بنیادی طور پر روس کے مسئلے کو تادیبی اقدامات کی مدد سے حل کرنے کا قائل نہیں ہے اور اس بارے میں کہا ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ شام میں ایک مستقل جنگ بندی کے لئے قراردادیں کیا مدد کر سکتی ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ روس کے خلاف پابندیوں سے زیادہ یہ منطقی بات یہ ہے کہ شام میں دوبارہ جنگ بندی کے لئے مثبت طور پر کوششیں کی جائین۔

اس سے قبل بھی فرانس کے وزیر خارجہ نے روس کے خلاف نئی پابندیوں کی مخالفت کرتے ہوئے تاکید کی تھی کہ شام کی پانچ سالہ خانہ جنگی کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔

گزشتہ ماہ امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والا جنگ بندی معاہدہ اعلان کے چند روز بعد ہی ناکام ہوگیا۔

گزشتہ ہفتے کے آخر میں  امریکہ اور روس نے مشترکہ طور پر سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر شام میں دوبارہ جنگ بندی کی بحالی کے لیے نئی سفارتی کوششوں کا آغاز کر دیا تھا ج س کے تحت منعقد ہونے والا اجلاس تقریبا چار گھنٹے مذاکرات کے بعد ہی بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا تھا۔

روسی وزیر خارجہ کے مطابق، آنے والے دنوں میں بھی رابطے جاری رہنے چاہئے۔

دوسری جانب، امریکی وزیر خارجہ نے لوزان اجلاس کے نتائج کے بارے میں اپنے یورپی ہم منصبوں کو آگاہ کیا ہے۔

جرمن حکومت کے مطابق، امریکی اور جرمن وزرائے خارجہ نے ایک ٹیلی فون بات چیت کے دوران اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مشکل حالات کے باوجود انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فائر بندی کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔

اس کے باوجود اخبار ٹیگ اشپیگل نے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ جرمنی یورپ میں روس کے خلاف نئی پابندیوں کو مزید بڑھانے کے لئے میدان میں اترا ہے اور اس ہفتے کے آخر میں  برسلز میں منعقد یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں اس معاملے کو اٹھا ئے گا۔

جبکہ نہ صرف فرانس اور جنوبی یورپ کے ممالک روس کے خلاف پابندیوں کے مخالف ہیں بلکہ جرمن کی اتحادی حکومت میں مرکل کی شریک (سوشل ڈیموکریٹک پارٹی) بھی اس مسئلے سے اتفاق نہیں کرتی۔

اس سلسلے میں جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے نائب سربراہ رالف اشٹنگر نے اخبار ٹیگ اشپیگل کو بتایا ہے کہ ہمارا شام میں روس کے کردار پر تمام تر تنقید کے باوجود ماسکو کے خلاف مزید نئی پابندیوں سے حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری