اسلام آباد میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاری، تکفیری جلسے کی اجازت حکومت کی دوغلی پالیسی ہے


اسلام آباد میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاری، تکفیری جلسے کی اجازت حکومت کی دوغلی پالیسی ہے

ترجمان شیعہ علما کونسل کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاری جبکہ دوسری جانب تکفیری جلسے کی اجازت حکومت کی دوغلی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے جبکہ تکفیری جلسے کی اجازت نیشنل ایکشن پلان کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق، ترجمان شیعہ علما کونسل نے کہا کہ اسلام آباد میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاری، تکفیری جلسے کی اجازت حکومت کی دوغلی پالیسی ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ تکفیری جلسے کی اجازت نیشنل ایکشن پلان کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے جبکہ حکومت ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔

تفصیلات کے مطابق، شیعہ علماءکونسل پاکستان کے ترجمان نے گزشتہ دنوں تکفیری گروہ کی جانب سے منعقدہ جلسے میں تکفیریت کے پرچار کی مذمت کی اور اسلام آباد میں دفعہ144 کے نفاذ کے باوجود جلسے کی اجازت دینے اور جلسے میں فرقہ واریت کو ہوا دینے پر کسی قسم کا نوٹس نہ لینے کو نیشنل ایکشن پلان کو سبوتاژ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے ۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت تکفیریت کے پرچار کا قانون کے مطابق نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف فوری کاروائی کرے۔

وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں دفعہ 441 کے نفاذ پر ایک جماعت کے کارکنوں پر تشدد کے واقعات اور دوسری جانب اسلام آباد میں تکفیریوں کو جلسے کی کھلی چھوٹ دینے کو حکومت کی دوغلی پالیسی کا حصہ قرار دیتے ہوئے ترجمان نے سوال اُٹھایا کہ کیا قانون کا نفاذ کسی ایک جماعت کے کارکنوں کے لیے ہے یا سب کیلئے یکساں ہوتا ہے۔

اُنہوں نے تکفیریوں کے جلسے میں تکفیری نعروں اور تقاریر کی پرزور مذمت کرتے ہوئے اسے نیشنل ایکشن پلان کی کُھلم کُھلا خلاف ورزی اور اس جرم میں خود حکومت کو شریک قرار دیا۔

اُنہوں نے کہا کہ ایک جانب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ملک کی محب الوطن جماعتوں سے قومی معاملات پر ملاقات کرنے سے احتراز برتتے ہیں جبکہ دوسری طرف تکفیری افراد سے نہ صرف ملاقاتیں کرکے اُنکے مطالبات تسلیم کرتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دیکر تکفیریت کا کھلم کھلا پرچار کرانے کی چھوٹ دے رہے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ کوئٹہ میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کو جن تنظیموں نے قبول کیا ہے، خود وزیر داخلہ بارہا اُن تنظیموں کا تعلق اِنہی تکفیری گروپس سے بتا چکے ہیں مگر اس کے باوجود ایک بار پھر حکومت کی اجازت سے ہی اِن تکفیری گروپوں کو کھلی چھوٹ دیکر ملک میں امن وامان کے حالات کو خراب کرنے کی سازش کی گئی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ملک اس وقت اندرونی سیاسی خلفشار کے باعث مذید کسی مذہبی سیاسی اختلاف کا متحمل نہیں ہوسکتا لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے اقدامات سے گریز کرے جو موجودہ صورتحال کو مذید کسی گھمبیر حالات سے دوچار کرنے میں مددگار بن سکتے ہوں۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری