لاہور میں ڈاکٹروں کا احتجاج اور ڈیڑھ سالہ بچی کی ہلاکت


لاہور میں ڈاکٹروں کا احتجاج اور ڈیڑھ سالہ بچی کی ہلاکت

زندہ دلان شہر لاہور میں، حکومت کی بےاعتنائی اور ڈاکٹروں کی بےحسی کے نتیجے میں، حکومت اور ڈاکٹروں کے درمیان جاری جنگ میں، ڈیڑھ سال کی بچی زندگی کی بازی ہار گئی۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق، میو ہسپتال میں چند ڈاکٹروں کی برطرفی پر ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال  اور احتجاجی دھرنا تیسرے روز میں داخل ہو چکا ہے۔

ڈاکٹروں کے احتجاجی دھرنے سے جہاں مال روڈ استعمال کرنے والے شدید مشکلات کا شکار ہیں وہیں اپنے مریضوں کو علاج کی غرض سے ہسپتال لانے والے لوگ بھی ڈاکٹروں کی عدم دستیابی پر بےپناہ ذہنی اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن حکومت ابھی تک ڈاکٹروں کو واپس ہسپتال لانے میں ناکام رہی ہے۔

آج صبح ایک شخص اپنی ڈیڑھ سالہ بچی کو علاج کی غرض سے ہسپتال لایا لیکن سنگدل ڈاکٹروں نے اس معصوم بچی کا علاج کرنے سے انکار کرتے ہوئے مال روڈ پر جانے کا کہہ دیا۔

حکومت ڈاکٹروں کے احتجاج پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور سفید کوٹ میں ملبوس مسیحائے قوم مال روڈ پر احتجاج میں مصروف ہیں جبکہ ڈیڑھ سال کی بےگناہ ثنا علاج نہ ہونے پر تڑپ تڑپ کر ہمیشہ کے لئے چلی گئی۔

کہنے کو یہ ایک عام سا واقعہ ہے، پڑھنے والے چائے کی چسکی لیتے ہوئے اس پر سرسری سی نگاہ ڈال کر آگے بڑھ جائیں گے لیکن پاکستان میں ایک گھرانہ ایسا بھی ہے جو یہ واقعہ کبھی نہ بھولے گا۔

ظاہر ہے کہ حکومت اور ڈاکٹروں کے درمیان مذاکرات ہو جائیں گے، احتجاج اور دھرنا بھی ختم ہو جائے گا، سب معمول پر آجائے گا، سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ثنا، کبھی لوٹ کر نہیں آئے گی۔

ایک بات تو طے ہے کہ ثنا کی موت طبعی نہیں، یہ ایک قتل ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ثنا کا قاتل کون ہے؟ گونگی، بہری حکومت؟ بےحس اور سفاک نام نہاد ڈاکٹرز؟ جنگل کے قانون والا نظام؟ یا ہمارا پورا معاشرہ؟؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے جائز حق کے لئے پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے، یہی جمہوریت کا حسن ہے لیکن کیا ڈاکٹر کسی بھی وجہ، کسی بھی احتجاج کی بنا اپنے فرائض سے کوتاہی برت سکتے ہیں؟؟

نہیں، ہرگز نہیں، قطعا نہیں !!!

اور یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹری کو مقدس پیشہ کہا جاتا ہے، اسی لئے ڈاکٹروں کو پوری دنیا میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے مریضوں کو اپنی ذات پر مقدم جانتے ہیں اور ڈاکٹر بننے پر اسی بات کا عہد کیا جاتا ہے کہ مریض کی صحت ان کی پہلی ترجیح ہوگی۔

یہ درست ہے کہ مال روڈ پر کوئی توڑ پھوڑ، مار پیٹ نہیں ہو رہی اور ہمارے مسیحا پرامن احتجاج میں مشغول ہیں لیکن ثنا کے والدین کے بہتے آنسو سوال کر رہے ہیں کہ جس احتجاج کے نتیجے میں ان کی ڈیڑھ سالہ ثنا ماری گئی، کیا وہ پرامن ہے؟؟؟

معصوم بچوں کے علاج سے انکار کرنے والے ہمارے مسیحاؤں کا ضمیر وہ مردہ ہے جسے شائد حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی زندہ نہ کر سکیں، اس تحریر کی تو بساط ہی کیا ہے لیکن بہرحال ۔۔۔

وَمَا عَلَیْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِینُ

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری