شاہ تراب؛ علم و عمل کے میدان میں عشق مصطفی و اہلبیت و صحابہ سے سرشار مجاہد


شاہ تراب؛ علم و عمل کے میدان میں عشق مصطفی و اہلبیت و صحابہ سے سرشار مجاہد

شاہ صاحب نے وطن عزیز کے ساتھ ساتھ دیارغیر میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شمع کو فروزاں کرنے اور مذہب، مہذب اہل سنت جماعت کی تبلیغ کے لئے افریقہ، امریکہ، یورپ، عرب ممالک و دیگر ایشیائی ممالک کے دورے کئے اور فتنہ ہائے قادیانیت، نجدیت،خارجیت اور نیچریت کا پردہ چاک کر کے لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔

خبررساں ادارہ تسنیم: علامہ شاہ تراب الحق قادری (پیدائش: 25 اگست 1946ء، وفات 6 اکتوبر 2016ء) معروف عالم دین اور جماعت اہلسنت پاکستان کراچی کے امیر اور متعدد کتب کے مصنف تھے۔ پاکستان قومی اسمبلی کے رکن، روئیت ہلال کمیٹی کے رکن سمیت کئی سرکاری اور غیر سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ان کے چہلم کے موقع پر پاکستانی کالم نگار مسعود چوہدری نے خصوصی مقالہ تحریر کیا ہے جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

پاکستان کے قیام میں علمائے اہل سنت کی قربانیاں بغیر کسی طمع، صلے اور لالچ کے تھیں۔ مدینے کے بعد اسلام کے نام پر دوسری بڑی ریاست کے قیام کیلئے محمد علی جناح اور انکے رفقاء کے دست بازوبن کر بھرپور جدوجہد کرکے اقبال کے خواب کو جناح کی قیادت میں تعبیر کی منزل تک پہنچایا۔

قیام پاکستان کے بعد مشائخ عظام اپنے خانقاہوں میں جلوہ گر ہوئے اور علمائے کرام نے دینی مدارس میں ایسے نامورعلماء تیارکئے کہ جو پاکستان کی تعمیر دوقومی نظریے کے فروغ اور نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نفاذ اور مقام مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تحفظ کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردینے کیلئے ہمہ تن عملی جدوجہد میں لگے رہے۔ ان ہی علماء حق کی فہرست میں نامورعالم مصنف، مقرر، مفکر حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری دارالعلوم امجدیہ جو کہ علامہ امجد علی اعظمی (مصنف بہارشریعت) خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان کے خلیفہ مجاز کے نام سے موسوم وہاں کے فاضل بن کر ابھرے۔

شاہ صاحب کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے، تعلیمی فراغت کے بعد اور دوران تعلیم وطن عزیز کی سیاست پر گہری نظر تھی۔ 60ء کے عشرے میں حکمرانوں کی طرف سے اسلامی قوانین کے بجائے عائلی قوانین ہو یا ون یونٹ کا قیام اور ملک کے اندرونی و بیرونی جارحیت ہوآپ کی بارعب آواز کی گونج سے ایوب جیسے جابر آمر بھی لرزاں براندام رہے۔

70ء کے عشرے میں وطن عزیز کی نظریاتی اساس اسلامی نظام کے بجائے سوشلسٹ نظام کی داغ بیل ڈالنے کیلئے جب بھٹونے آغازکیا تو شاہ صاحب نے اپنے اکابر علماء کی قیادت میں ٹوبہ ٹیک سنگھ دارالسلام میں سنی کانفرنس کے ذریعے نہ صرف بھرپور مخالفت کی بلکہ بھرپور مزاحمتی کرداربھی ادا کیا اور 70ء کے انتخابات میں جمعیت العلمائے پاکستان مغربی پاکستان کی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت بن کر اُبھری۔ 1974ء میں قادیانیوں کے فتنے نے سر اٹھایا تو کراچی تا کشمیر، خیبر تا گوادر، ختم نبوت کی تحریک میں شاہ صاحب کے عوامی جلسوں میں ان کا دلیرانہ و مجاہدانہ انداز اپنے تو کیا بد عقیدہ گروہ اور مخالف مسالک کے مولوی بھی معترف ہیں۔

1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں شاہ صاحب کے کردار اور ان کی تقاریر سے حکمرانوں کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا اورحکمرانوں کی بوکھلاہٹ ان کے چہروں سے عیاں ہوتی تھی۔

1978 سنی کانفرنس ملتان، رائیونڈ کی میلاد مصطفی کانفرنس میں شاہ صاحب کی خدمات اہل سنت کی تابناک اور درخشاں تاریخ ہے۔

آپ کو نہ صرف وطن عزیز میں ہونے والے سیاسی تبدیلیوں بلکہ عالمی سطح پر ہونے والے سیاسی تغیرات پر بھی گہری نظر تھی۔ وطن عزیز میں ضیاء آمریت کے دورمیں سفید ریچھ (روسی) اور سفید ہاتھی (امریکہ) کی سردجنگ اور افغان دھرتی پر روسی جارحیت اور پاکستان کی پرائی آگ میں کودنے کے خلاف اپنا بھرپور موقف کا اظہار کیا اور ان آگ کے شعلوں سے وطن عزیز بھی لپیٹ میں آجانے کے حوالے سے حکمرانوں کو دلائل دئے جو آج پوری قوم ضیاء کے بھڑکائے ہوئے شعلوں میں پوری طرح جھلس رہی ہے۔

جب ضیاء آمر نے غیر جماعتی بنیادوں پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کا اعلان کیا تو جے یو پی کے بائیکاٹ کے پیش نظر اہل سنت والجماعت کے اکابرین کا طویل اجلاس کے بعد فیصلہ کیاگیا کہ انتخابی عمل کو بدمذہبوں کے لئے کھلا نہ چھوڑاجا ئے، یوں فیصلہ ہوا کہ انتخابات میں حصہ لیا جائے یوں امجدیہ گروپ (جو بعدازاں نظام مصطفی گروپ کہلایا) کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا، یوں چار اراکین امجدیہ گروپ اور چار انکے حمایت یافتہ امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ اُن میں شاہ صاحب شامل تھے جنہوں نے اپنے مخالف اُمیدواروں کو 22 ہزار ووٹوں سے شکست دی، شاہ صاحب اسمبلی کے ایوان میں اپنے بزرگ اکابرین کی روایت کو برقراررکھتے ہوئے عوامی نمائندگی کا بھرپور حق ادا کیا اور قومی اسمبلی میں قانون سازی میں بھر پور حصہ لیا اور اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے نہ صرف تجاویز دی بلکہ اسے قانونی شکل دی اور ضیاءآمر اور جونیجو کی سرکار کو کھلی من مانی نہیں کرنے دی اور اسمبلی میں اذان سے پہلے درود و سلام نہ پڑھنے کے حوالے سے ایک تحریک میں بھرپور مخالفت کی اور اسمبلی میں درودوسلام پڑھ کر ضیاء آمر کو ہلاکر رکھ دیا اور یوں یہ بل اسمبلی میں کثرت رائے سے اسمبلی کے فلور پر ناکام ہوا۔

گستاخ رسول کی سزا سزائے موت کے قانون 295C کیلئے آپ کا کردار قومی اسمبلی میں بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔ توہین رسالت کے مجرم کی پہلی سزاعمر قید تھی لیکن آپ کی کوششوں سے یہ عمرقید سے بدل کر سزائے موت میں تبدیل کردی گئی۔

ساڑھے تین سال اسمبلی کی مدت میں اپنے حلقے کے عوام اپنی مذہبی و دینی فرائض سے تغافلی اختیار نہیں کی بلکہ ہر پانچ نمازوں میں اپنے حلقے کے عوام سے رابطہ رہا اور اسمبلی میں خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی ہرشعبے میں کھل کر اسمبلی میں اپنا موقف پیش کیا اور افغان پالیسی پرمحمدخان جونیجو وزیراعظم اور وزیرخارجہ زین نورانی کی پالیسی کی تعریف کی جبکہ ضیاء ان کے برعکس موقف رکھتے تھے۔

شاہ صاحب کا دوسرا پہلو بحیثیت منتظم جماعت اہل سنت جو تین گروہوں میں تقسیم تھی، اس حوالے سے انجمن طلبہ اسلام کے سابق ساتھیوں کی پرخلوص کاوشوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اپنے گروپ کوضم کرکے ایک وحدت کی لڑی میں اپنے آپ کو پیش کیا، یوں متحدہ جماعت اہل سنت کراچی کے امیر مقرر ہوئے اور تادم زندگی اس ذمہ داری کوبحسن وخوبی انجام دیا اور کراچی میں سنی عوام کے حقوق کی نگہبانی کا فریضہ انجام دیا اور کراچی کے اضلاع، ٹاؤن اور یوسی کی سطح پر تنظیم قائم کی اور نوجوانوں کے اندر قیادت کی صلاحیتوں کو نہ صرف نکھارا بلکہ ان کو پروان چڑھایا اور ذمہ داریاں تقویض کی۔ انہوں نے کراچی کی سطح پر ماہانہ درس قرآن کا سلسلہ جاری کیا جو ہنوز جاری ہے۔

شاہ صاحب نہ صرف کراچی کے سنی عوام کے دلوں کی دھڑکن بلکہ پورے پاکستان کی سنی عوام کی دھڑکن تھے اور پاکستان بھر میں انکے جلسے و خطابات میں عوام مکمل طور پر ان کی آواز کی سحر کے اسیر ہوجاتے اور انکے خطابات میں عوامی انداز، سہل زبان اور لوگوں کو ان کی سمجھ کے مطابق دلائل کے ذریعے خطاب ہوتا تھا۔

شاہ تراب الحق قادری ساری زندگی تحفظ عقائد اہل سنت کے لئے شبانہ روزمحنت کی نجدیت،خارجیت، نیچریت کے فتنے کا بھر پور مقابلہ کیا اور نام بدل بدل کر کام کرنے والی جماعتوں کے فتنوں اور ان کے مکروہ چہروں کو دلیرانہ انداز میں کو بے نقاب کرتے رہے اور تقریر برمحل موقع اشعاران کی تقریر کا جز ہوتا اور اشعارعوام کے زبانوں پرجاری رہتے۔

شاہ صاحب نے وطن عزیز کے ساتھ ساتھ دیارغیر میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شمع کو فروزاں کرنے اور مذہب، مہذب اہل سنت جماعت کی تبلیغ کے لئے افریقہ، امریکہ، یورپ، عرب ممالک و دیگر ایشیائی ممالک کے دورے کئے اور فتنہ قادیانیت کا پردہ چاک کیا اور لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔

شاہ تراب الحق کی ہمہ جہت شخصیت کا یہ پہلو بھی ہے کہ خطابات کے ساتھ ساتھ تالیف وتصنیف کا کام بھی جاری رکھا اور کئی علمی شہ پارے تصنیف کئے۔ جس نے علماء اورعوام اہل سنت میں خوب پذیرائی حاصل کی۔

جنازے سے لے گئی تصویر

جماعت اسلامی کا کراچی میں مئیرمنتخب ہونے کے بعد اہل سنت کی مساجد پر قبضے اور سازشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو اس پر شاہ صاحب نے بھر پور مزاحمتی کردار ادا کیا اور قانونی چارہ جوئی کے ذریعے انکے پنجہ استبداد سے واگزار کرتے رہے اور کراچی کے اطراف و اکناف میں اہل سنت کے خلاف ہونے والی سرکاری سطح پر ناانصافی پر بھرپور احتجاج ریکارڈ کراتے بلکہ حکمرانوں کو اپنے فیصلوں کو تبدیل کرنے کیلئے عملی سطح پر جدوجہد بھی کرتے رہے۔

شا ہ صاحب کراچی میں اہل سنت کے مدارس، مساجد، تنظیموں اور علاقائی سطح کی مسلک کی میلاد کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ کئی بڑے فلاحی اداروں کے سرپرست رہے جن کی کاوشوں میں کراچی میں دارالعلوم مصلح الدین کا قیام بھی شامل ہے۔

شاہ صاحب بحیثیت کئی جامعات کے سینڈیکٹ کے رکن رہے اور تعلیمی اور نصاب کے حوالے سے اپنی رائے اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے کئی اقدامات کئے اور سازشی ذہن رکھنے والے مولوی جو عیدین کی ہلال کومتنازعہ بناتے وہ بھی ان کی شخصیت سے خائف رہتے۔
شاہ صاحب حالیہ مشرق وسطیٰ بالخصوص افغان جہاد کی آڑ میں اور بدمذہبوں کی سامراجی آقاؤں سے مل کردہشت گردی اور انتہاپسندی اور پاکستان میں ان بدمذہب گروہ کی پناہ گاہوں میں دہشت گردتنظیموں کی بھرپور مخالفت کی اور اس حوالے سے سانحہ نشترپارک جیسے اندوہناک سانحے کے باوجود بلاخوف و خطر کراچی میں بغیر کسی گارڈ کے آزادانہ طور پر سفر کرتے رہے اور ان دہشت گرد تنظیموں کے سرپرست شاہ صاحب کی شخصیت سے ہروقت دہشت زدہ رہے۔

شاہ صاحب کی وہابیت سے دشمنی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی جس کا اندازہ ان کے مختلف فتوؤں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے ایک تاریخی فتویٰ میں وہابی العقیدہ علماء کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز قرار نہیں سمجھتے تھے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری