پاکستان کا ٹرمپ سے بالواسطہ رابطہ


پاکستان کا ٹرمپ سے بالواسطہ رابطہ

پاکستان نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ انکے ایک قریبی ساتھی کے ذریعے رابطہ کیا ہے تاکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ اور جنوبی ایشیا کی پیچیدہ صورتحال جیسے اہم امور پر نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق، امریکہ میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھا جس میں انہیں صدر منتخب ہونے کی مبارکباد دی اور پاکستانی حکومت کی طرف سے مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔

تاہم ایکسپریس نیوز نے اطلاع دی ہے کہ ان سفارتی ذرائع کے علاوہ حکومت نے غیر روایتی ذرائع اختیار کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیروں کے ذریعے بھی بالواسطہ رابطہ کیا ہے۔

ان مشیروں میں سے ایک پاکستانی نژاد امریکی ساجد تارڑ ہیں جن سے پاکستان نے رابطہ کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق، ساجد تارڑ اس وقت نمایاں ہو کر سامنے آئے جب انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی تحریک شروع کی جو کہ ایک جراتمندانہ فیصلہ تھا کیونکہ پاکستانیوں سمیت مسلمانوں کی اکثریت ہلیری کلنٹن کی حامی تھی۔

تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ساجد تارڑ امریکہ میں نمایاں شخصیت بن کر ابھرے ہیں، وہ ٹرمپ کی انتخابی مہم چلانے کے لیے مقرر کیے گئے 36 مشیروں میں سے ایک ہیں۔

ساجد تارڑ کا تعلق منڈی بہاؤالدین سے ہے وہ 30 سال قبل امریکہ گئے تھے انھیں 90 کی دہائی میں امریکی شہریت ملی، وہ اکثر پاکستان آتے رہتے ہیں اور اسلام آباد میں انکا ایک گھر بھی ہے۔ انہیں ٹرمپ انتظامیہ میں اہم ذمہ داری سونپے جانے کا امکان ہے۔

ساجد تارڑ نے فلوریڈا سے خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ حکومت پاکستان نے ان سے رابطہ کیا ہے تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومت تک رسائی حاصل کی جا سکے۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ٹرمپ دہشتگردی کیخلاف بہت سخت موقف اختیار کریں گے، اس معاملے پر اب سیدھی بات ہوگی۔ انھوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ دہشتگردی کے معاملے پر محض لفاظی برداشت نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی ہونے کے ناطے وہ نئے امریکی صدر سے درخواست کریں گے کہ وہ پاکستان کی مالی امداد پر نظرثانی کریں۔

کئی دہائیوں سے امریکی امداد عام پاکستانیوں تک نہیں پہنچ سکی بدقسمتی سے صرف امیروں اور اشرافیہ نے ہی اس سے فائدہ اٹھایا ہے یہ عمل اب تبدیل ہونا چاہیے۔

انھوں نے کہاکہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ٹرمپ اپنے سابق صدور کی پالیسیوں کا دوبارہ جائزہ لیں گے اور یقیناً وہ افغانستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے اپنی حکمت عملی اختیار کریں گے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری