پاک ترک اسکولز اساتذہ کی ملک بدری/ گیند حکومت کے کورٹ میں


پاک ترک اسکولز اساتذہ کی ملک بدری/ گیند حکومت کے کورٹ میں

پشاور ہائی کورٹ نے پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کی ملک بدری روک کر گیند حکومت کے کورٹ میں ڈال دی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا حکومت اس سلسلے میں ترک حکومت کی من مانی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہزاروں طالبعلموں کی زندگی داؤ پر لگاتی ہے یا عدالت کا احترام کرتے ہوئے پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کو باعزت ملک میں رہنے کی اجازت دیتی ہے؟

تسنیم خبررساں ادارے کے مطابق، پشاور ہائی کورٹ نے پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کی ملک بدری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ اساتذہ کو ملک بدر نہیں کیا جاسکتا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے جواب بھی طلب کر لیا ہے۔

جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اکرام اللہ پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پاک ترک اسکولز میں زیر تعلیم طالب علموں اور ان کے والدین کی جانب سے دائر پٹیشن کی سماعت کی۔

درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت نے سیاسی وجوہات کی بناء پر ترک اساتذہ کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی حالانکہ اساتذہ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ ملک بھر میں پاک ترک اسکولز کے 26 کیمپس ہیں جہاں 11 ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔

اس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ نے حکومت کی جانب سے ترک عملے کو ملک چھوڑنے کی ہدایات پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے میں اپنا موقف واضح کرے۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے کے جسٹس عامر فاروق نے بھی پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کو ملک چھوڑنے کے حوالے سے دائر درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزارت داخلہ نے اساتذہ کو ملک چھوڑنے کے لیے بہت کم وقت دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اساتذہ کو وزارت داخلہ سے دوبارہ رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی تھی۔

حکومت نے رواں ماہ کے آغاز میں پاک ترک اسکولز کے ترک عملے کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ ترک صدر رجب طیب اردگان کے دورہ پاکستان سے قبل ملک چھوڑ دیں۔

ترک حکومت کا خیال ہے کہ پاک ترک اسکولز اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جسے امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن چلاتے ہیں۔

ترکی کی جانب سے مبینہ طور پر پاکستان سے ان اسکولوں کی بندش کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ 15 جولائی کو ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترکی نے فتح اللہ گولن کی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے کر پابندی عائد کردی تھی۔

16 نومبر کو پاکستان کے 2 روزہ دورے پر آنے والے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کہا تھا کہ فتح اللہ دہشت گرد تنظیم نہ صرف ترکی بلکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔

اس سے قبل اگست کے مہینے میں پاکستان کے دورے پر آنے والے ترک وزیر خارجہ میلود چاووش اوغلو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاک ترک اسکولز کے معاملے پر غور کرے گا جسے ترکی نے امریکا میں مقیم فتح اللہ گولن سے روابط کا الزام عائد کرکے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اپنے دورے کے دوران میلود چاووش اوغلو نے کہا تھا کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گولن کی تنظیم پاکستان اور دیگر ممالک میں کئی اداروں کو چلا رہی ہے، مجھے یقین ہے کہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں ان اداروں اور ان سے درپیش ہر اس ملک کے استحکام و سلامتی کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے جہاں یہ موجود ہیں۔

واضح رہے کہ پاک ترک اسکولز اور کالجز کے نیٹ ورک کا قیام 1995 میں اس غیر ملکی این جی او کے تحت عمل میں آیا تھا جو ترکی میں رجسٹرڈ تھی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا حکومت اس سلسلے میں ترک حکومت کی من مانی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہزاروں طالبعلموں کی زندگی داؤ پر لگاتی ہے یا عدالت کا احترام کرتے ہوئے پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کو باعزت ملک میں رہنے کی اجازت دیتی ہے؟

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری