عدلیہ کسی کو خوش کرنے کے لیے فیصلے نہیں سناتی، چیف جسٹس


عدلیہ کسی کو خوش کرنے کے لیے فیصلے نہیں سناتی، چیف جسٹس

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے ایسے موقع پر یہ بیان دیا ہے کہ تحریک انصاف نے وزیر اعظم اور اس کے اہل خانہ کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا بائیکاٹ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم نے ڈان نیوز سے نقل کیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ عدلیہ کسی کو خوش کرنے کے لیے فیصلہ نہیں کرتی اور نہ عدالتی فیصلوں پر میڈیا سمیت کوئی اثر انداز ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے یہ اہم ریمارکس ایسے موقع پر دئیے ہیں جب سپریم کورٹ کی 5 رکنی بینچ نے ایک دن قبل ہی پاناما اسکینڈل کیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کی ہے۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی پاناما کیس کی سماعت کرنے والی 5 رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے تھے، وہ اگلی سماعت میں بینچ کا حصہ نہیں ہوں گے، کیوں کہ چیف جسٹس رواں ماہ 30 دسمبر کو ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔

جمعہ 9 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے وزیر اعظم اور اس کے اہل خانہ کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ سنایا تو پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) نے کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔

لاہور ہائی کورٹ کی 150 وییں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ عدالتیں خودمختار ہیں، سپریم کورٹ سے لے کر جوڈیشل میجسٹریٹ تک تمام عدالتیں کسی کے دباؤ کے بغیر کام کر رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریاست کے دیگر اداروں کی ناکامی کے بعد عوام کی انصاف کے لیے عدالتوں سے امیدیں وابستہ ہوگئیں ہیں، اس وقت کرپشن، اقربا پروری اور غیرقانونی کاروبار جیسے مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ کسی ادارے کو دوسرے ادارے کے اختیارات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئیے، عدالت کو پارلیمینٹ کے بنائے گئے قانون کا جائزہ لینے کا اختیار ہے، عدلیہ کو اپنی ذمہ داریاں مزید بہتر بنانے کے لیے بار کی مدد کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 150 وین سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کرنے پر لاہور ہائی کورٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی حکمرانی نافذ کرنے میں لاہور ہائی کورٹ کا کردار بہت اہم رہا ہے، یہ ایک تاریخی ادارہ ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کرنے پرلاہور ہائی کورٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تمام ادارے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو بہتر کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نامزد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ایک جج کا کام صرف فیصلہ سنانا نہیں ہوتا، بلکہ جج کا کام مکمل انصاف کرنا ہوتا ہے، عدلیہ کے پاس لامحدود اختیارات نہیں ہوتے عدلیہ کو آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ خود احتسابی کے لیے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اداروں کو افراد پر فوقیت ہونی چاہئیے، افراد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں مگر اداروں کو افراد کی خاطر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ہمیں نظام میں مزید بہتری کے لیے اصول و ضوابط بنانے پڑیں گے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے مختلف اداروں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کے درمیان روابط بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور تمام مسائل مذاکرات سے حل کرنے چاہئیے، تمام اداروں کو ملکی بہتری کے لیے اپنی ذمہ داریاں آئینی حدود میں رہہ کر سر انجام دینی چاہئیے۔

ایوان اقبال میں ہونے والی اس تقریب میں سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منظور احمد ملک نے بھی شرکت کی۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری