گوادر پورٹ کے سمندری راستوں کی حفاظت خصوصی دستے کے سپرد


گوادر پورٹ کے سمندری راستوں کی حفاظت خصوصی دستے کے سپرد

پاک بحریہ کی جانب سے گوادر پورٹ اور اس سے ملحقہ سمندری راستوں کی حفاظت کے لیے خصوصی دستہ ’ٹاسک فورس 88‘ تشکیل دے دیا گیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم نے ڈان نیوز کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاک بحریہ کی جانب سے گوادر پورٹ اور اس ملحقہ سمندری راستوں کی حفاظت کے لیے خصوصی دستہ ’ٹاسک فورس 88‘ تشکیل دے دیا گیا۔

اس سلسلے میں گوادر میں چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے انٹرنیشنل میری ٹائم کانفرنس کا انعقاد ہوا اور اس دوران خصوصی ٹاسک فورس کو باضابطہ طور پر حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔

واضح رہے کہ پاک بحریہ نے گوادر پورٹ کی سمندری سیکیورٹی اور اس سے منسلک سمندری راستوں کو لاحق روایتی اور غیر روایتی خطرات کا سامنا کرنے کے لیے ’ٹاسک فورس 88‘ (TF-88) بنانے کا منصوبہ بنایا تھا جسے اب عملی جامع پہنا دیا گیا ہے۔

تقریب میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ذکاء اللہ، چیف آف ایئر اسٹاف ایئر چیف مارشل سہیل امان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی جنرل زبیر حیات اور وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری بھی موجود تھے۔

وزیر اعظم نواز شریف کو بھی تقریب میں شرکت کرنا تھی تاہم ایڈمرل ذکاء اللہ نے بتایا کہ لاہور اس ان کی پرواز دھند کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوگئی۔

اس خصوصی میری ٹائم فورس کی تیاری پاک چین اقتصادی راہداری سے آپریشنز کے آغاز کے بعد ضروری تھی، جس سے گوادر میں سمندری سرگرمی اور بحری راستے مزید محفوظ ہونے کی توقع ہے اور میری ٹائم کی اثر پذیری میں اضافہ ہوگا۔

اس حوالے سے پاک بحریہ کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ٹاسک فورس 88 بحری جہازوں، فاسٹ اٹیک کرافٹ، ایئرکرافٹ، ڈرونز اور نگرانی کے جدید آلات سے لیس ہوگی جبکہ میرینز کو سمندر اور گوادر کے اطراف میں سیکیورٹی آپریشنز کے لیے تعینات کیا جائے گا۔

سی پیک کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ ’ٹاسک فورس منصوبے کی مجموعی سیکیورٹی کے لیے انتہائی کارگر ہوگی، راہداری کے زمینی راستوں کو پہلے ہی خصوصی سیکیورٹی ڈویژن کے ذریعے محفوظ بنایا جاچکا ہے اور اب سی پیک میں مرکزی حیثیت رکھنے والے گوادر کو بھی محفوظ بنایا جاسکے گا‘۔

خیال رہے کہ روایتی طور پر پاکستان کو بھارت کی جانب سے سمندری سیکیورٹی کے چیلنجز کا سامنا ہے، تاہم چین کے گوادر پورٹ سے وابستہ ہونے اور سی پیک کے آغاز نے سیکیورٹی کے ماحول کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

بھارت گوادر پورٹ کو چین کا بحیرہ عرب میں قدم جمانے کا ذریعہ سمجھتا ہے اور جوابی حکمت عملی کے طور پر مختلف دھمکیاں دے رہا ہے۔

اسی وجہ سے بھارت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے پروجیکٹ کو نقصان پہنچانے کے لیے گوادر کے اطراف کے بڑے حصے میں اپنی سرگرمیاں بڑھادی ہیں۔

اسی طرح اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ سی پیک کی میری ٹائم ٹریفک کو غیر روایتی خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس میں سمندری دہشت گردی، منشیات اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ، انسانی اسمگلنگ اور بحری لوٹ مار شامل ہیں، جبکہ اس خطے کو پہلے ہی ان میں سے کئی مسائل کا سامنا ہے۔

سیکیورٹی کی پیچیدہ صورتحال کے باعث سمندری ٹریفک کے خطرات بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے کارگو کی انشورنس لاگت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جبکہ چینی حکام کی جانب سے بھی پاکستان پر سی پیک کی سیکیورٹی بڑھانے کے لیے زور دیا جارہا تھا۔

پاک بحریہ نے گوادر کے ساحلی علاقے کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے’کوسٹل سیکیورٹی‘ اور ’ہاربر ڈیفنس فورس‘ بھی تشکیل دی ہے جبکہ گوادر میں چینی ورکرز کی سیکیورٹی کے لیے ’فورس پروٹیکشن بٹالین‘ بھی تعینات کی گئی ہے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری