دو روزہ عالمی سیرت النبی کانفرنس میں 19 ممالک کی شرکت


دو روزہ عالمی سیرت النبی کانفرنس میں 19 ممالک کی شرکت

اسلامی تعلیمات کی روشی میں بین المذاہب ہم آہنگی کے عنوان سے پہلی دو روزہ عالمی سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کانفرنس میں 19 ممالک سے مختلف مذاہب اور مسالک کے نمائندگان نے شرکت کی۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی تعلیمات کی روشی میں بین المذاہب ہم آہنگی کے عنوان سے پہلی دو روزہ عالمی سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کانفرنس میں 19 ممالک سے مختلف مذاہب اور مسالک کے نمائندگان نے شرکت کی۔

ہوٹل میں وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے زیر اہتمام دو روزہ عالمی سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کانفرنس میں19 ممالک کے بہائی، پارسی، کرسچن، ہندو اور سکھ برادری کے نمائندگان نے شرکت کی۔

کانفرنس میں ترکی ،موریشیس، مالدیپ کے وزارت مذہبی امور کے وزرا نے بھی شرکت کی۔

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف کا کہنا تھا کہ کانفرنس کا مقصد دنیا کے تمام مذاہب میں سیرت طیبہ کی روشنی کو اجاگر کرنا ہے۔

ترک وزیر برائے مذہبی امور پروفیسر ڈاکٹر مہمت گورمیز کا کہنا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پوری دنیا کیلئے رحمت للعالمین بن کر آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترکی حکومت 1389 ہجری سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کا ہفتہ مناتی ہے۔

کانفرنس میں منعقدہ سیمینار میں مذہبی ہم آہنگی کو درپیش مسائل، میڈیا، مذہبی سکالرز اور نصاب سازی کے کردار پر بحث و مباحثہ کیا جائے گا۔ بین المذاہب ہم آہنگی بلاشہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کانفرنس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس امر کو واضح کیاگیا۔

اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ماضی میں اسلام کے نام پر جو فساد پھیلایا گیا، ہماری 3 سال کی مسلسل کوشش سے اس فساد کا دروازہ بڑی حد تک بند ہوگیا ہے۔

لاہور میں عالمی سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سارے جہانوں کے لئے رحمت تھے لیکن بدقسمتی ہے کہ ہم نے سلامتی والے دین کو خوف کی علامت بنا دیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بعثت کا سلسلہ ختم ہو چکا اور نبوت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد ان کے پیغامات اور عمل کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری امت پر عائد ہوتی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہی ہماری کامیابی ہے اور امن و ترقی کی منزل نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی پر عمل کرنے سے ہی مل سکتی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ جناب ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انسانی جان کی حرمت کو بیت اللہ کی حرمت قرار دیا، کیا ہم نے وہ معاشرہ قائم کیا ہے جس میں انسانیت کا احترام کیا جاتا ہے، کیا دوسرے مذاہب اور اقوام کے ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چارٹر کے مطابق تعلقات استوار کیے گئے ہیں؟

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی ہے کہ دین سے اخلاق سیکھنے کے بجائے عصبیت سیکھی گئی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اسوہ حسنہ کے پیمانے پر حکومت کو پرکھنا ہے، معاشرے کی پہلی اینٹ انسانیت کا احترام ہے ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے باہمی تعلقات کیلئے انسانی حقوق کا چارٹر پیش کیا۔

وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ہونے والی بین الاقوامی سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق ایک دوسرے کے مذہبی قائدین اور عبادت گاہوں کا احترام ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔ مذہبی قائدین ایسے اشتعال انگیز بیانات و تحریروں سے احتراز کریں جن سے دوسروں کی دل آزاری ہو۔

وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی پیر سید امین الحسنات نے کانفرنس میں مشترکہ اعلامیہ پیش کیا۔

اس موقع پر وزیر اعظم محمد نواز شریف، وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف، صدر مذہبی امور ترکی ڈاکٹر مہمت گورمیز، نائب وزیر مذہبی امور مالدیپ علی وحید سمیت اراکین سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلی، وفاقی و صوبائی وزرا علما کرام و مشائخ عظام اور تمام مذاہب کے سکالرز موجود تھے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ مذہبی تنازعات اور اختلافات کو باہمی مشوروں افہام و تفہیم اور سنجیدہ مکالمے کے اصولوں کی روشنی میں طے کیا جائے۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام مذہبی اکابرین کے لئے لازمی تربیتی پروگرام تشکیل دیئے جائیں، جس کے ذریعے انہیں دیگر مذاہب کی بنیادی معلومات حاصل ہوں۔

اعلامیہ میں آیا ہے کہ تمام مذاہب کے اکابرین اور اسکالرز کو مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی ہم آہنگی کے لئے ایک دوسرے کی عبادت گاہوں مثلا مندروں، مدارس، مساجد، گرجا گھروں اور گوردواروں کے مسلسل دورے کرنے چاہئیں۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مدارس، اسکول، کالج اور جامعات میں بقائے باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ذریعے پرامن معاشرے کے قیام کیلئے تمام مذاہب کی کتابوں سے ایسا نصاب ترتیب دیا جائے، جو بقائے باہمی کی دعوت دے اور حکومت کے ذریعے اسکی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ اقلیت کا لفظ ایک ایسے امتیازی تاثر کا حامل ہے، جس سے کسی کے مقام کے کمتر ہونے کا پہلو ابھرتا ہے، اس لفظ کی بجائے تمام مذاہب کیلئے کوئی موزوں متبادل لفظ ہونا چاہیئے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ دور حاضر میں میڈیا کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے لہٰذا مناسب قانون سازی کے ذریعے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو بین المذاہب ہم آہنگی کی مہم چلانے پر آمادہ کیا جائے نیز ان میں موجود نفرت انگیز مواد جس میں کسی بھی مذہب، مذہبی جماعت یا برادری کی مسخ شدہ صورت پیش کی ہو، اس نفرت انگیز مواد کو ضبط اور تلف کیا جائے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ تمام مذاہب کی تعلیمات، مذہبی رواداری، عدم تشدد، احترام انسانیت اور انسانی جان کی حرمت کا درس دیتی ہیں لہذا اہل مذاہب کو ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ میثاق مدینہ اور قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کو دستور ساز کمیٹی کے ممبران سے کی گئی تقریر میں بین المذاہب ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے روشن اصولوں کو نافذ کیا جائے تاکہ پاکستان میں پائے جانیوالے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔

واضح رہے کہ دو روزہ بین الاقوامی سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کانفرنس کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی کا فروغ اور پرچار ہے۔ کانفرنس کے تحت پینل ڈسکشن کا انعقاد ہوا، جس میں 4 پینل ترتیب دیئے گئے ہر پینل میں 20 سے زائد سکالرز جو اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے نمائندوں پر مشتمل تھے، نے مذہبی رواداری، ہم آہنگی اور برداشت کے قیام کے حوالے سے مختلف مذاہب میں پائے جانیوالے مشترکات کو تلاش کیا جو تمام مذاہب کیلئے قابل قبول ہوں، کانفرنس میں 11 ممالک کے مندوبین شامل تھے۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری