وفاقی حکومت نے سعودی شہزادوں کو بھی تلور کے شکار کے لئے خصوصی اجازت نامے جاری کردئے


وفاقی حکومت نے سعودی شہزادوں کو بھی تلور کے شکار کے لئے خصوصی اجازت نامے جاری کردئے

پاکستان کی وفاقی حکومت ایسی حالت میں عرب شیوخ کو نایاب پرندے کے شکار کے لئے مسلسل اجازت نامے جاری کررہی ہے کہ پاکستانی قوم اور اعلیٰ سیاسی و مذہبی شخصیات اس فعل کو عربوں کی جانب سے پاکستانیوں کی غیرت کے ساتھ کھیلنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، وفاقی حکومت نے عالمی طور پر تحفظ شدہ نایاب پرندے تلور کے شکار کے لیے 3 سعودی شہزادوں کو خصوصی اجازت نامے جاری کردیئے۔

ڈان نیوز نے بتایا ہے کہ یہ اجازت نامے شکار کے سیزن کے دوران بلوچستان اور پنجاب میں تلور کے شکار کے لیے جاری کیے گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اجازت نامے پانے والوں میں تبوک کے گورنر اور سعودی عرب کے سابق بادشاہ سعود بن عبد العزیز السعود مرحوم کے دو بیٹے شامل ہیں۔

تلور ہر سال وسطی ایشیا کے سرد علاقوں سے نسبتاً گرم علاقوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ تبوک کے گورنر شہزادہ فہد بن سلطان بن عبد العزیز السعود کو بلوچستان کے ضلع آواران، نوشکی اور چاغی (شمال مغرب کے علاوہ) میں تلور کے شکار کی اجازت دی گئی ہے۔

شہزادہ منصور بن سعود بن عبد العزیز السعود اور ان کے بھائی شہزادہ مِشعل بن سعود بن عبد العزیز السعود کو پنجاب کے ضلع لیہ میں شکار کے اجازت نامے دیئے گئے ہیں۔

وزارت خارجہ نے یہ اجازت نامے سعودی سفارتخانے کے ذریعے جاری کیے، جن میں کہا گیا ہے کہ ’سعودی عرب کے معززین کے شکار کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے متعلقہ صوبوں کی انتظامیہ کو سفارشات بھیج دی گئی ہیں۔‘

ان اجازت ناموں کے ساتھ وزارت خارجہ کے ڈپٹی پروٹوکول چیف کی جانب سے جاری کردہ قواعد و ضوابط بھی بھیج دیئے گئے ہیں، جن کی نقول صوبوں کے متعلقہ حکام کو بھی فراہم کردی گئی ہیں۔

اجازت ناموں کے تحت تلور کے شکار کے سیزن کے دوران شکاریوں کو 10 روز میں 100 تلور کے شکار کی اجازت ہوگی، جبکہ یکم نومبر سے شروع ہونے والا سیزن 31 جنوری 2017 کو اختتام پذیر ہوگا۔

یاد رہے کہ گورنر فہد اس وقت توجہ کا مرکز بنے تھے، جب میڈیا کے ذریعے یہ بات سامنے آئی تھی کہ سال 15-2014 میں انہوں نے اپنے دورہ چاغی کے دوران تقریباً 2 ہزار 100 تلور کا شکار کیا۔

کئی مظاہروں اور عدالتی مداخلت کے بعد وفاقی حکومت نے عربیوں کو شکار کے لیے کوئی اجازت نامہ جاری نہیں کیا۔

تاہم 16-2015 کے دوران شہزادہ فہد نے دوبارہ شکار کے سیزن کے دوران چاغی کا دورہ کیا اور جب میڈیا نے حکومت سے اس حوالے سے سوال کیا تو کہا گیا کہ شہزادے نے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لینے کے لیے علاقے کا دورہ کیا تھا۔

وفاقی حکومت عام طور پر عربوں کو چاروں صوبوں میں شکار کی اجازت دیتی ہے اور سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے سیاستدان اور بیوروکریٹس تلور کے شکار کے لیے آنے والے ان شکاریوں کا اپنے علاقوں میں استقبال کرتے ہیں۔

دوسری جانب، معروف اینکر پرسن ڈاکٹر عامر لیاقت نے دعویٰ کیا ہے کہ حیرت انگیز طورپر عرب شیوخ کی بیگمات ان کے ساتھ نہیں ہوتیں لیکن وہ خود آتے ہیں، یہ کیوں نہیں ہوتیں؟ ان کی بیگمات کو تلور کیوں پسند نہیں، یہ ہمارے لیے بہت گہرا سوال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اگر اس کی گہرائی میں جاﺅں تو ٹی وی پر بتا نہیں سکتا کیونکہ خیموں سے بلند ہوتی چیخیں ۔۔۔ وہ میں آپ کو نہیں بتاسکتا بہرحال ان کی بیگمات ساتھ نہیں ہوتیں اور یہ خود آتے ہیں اور کوئی روک ٹوک نہیں، عرب شہزادے اور ان کے دوستوں کو تلور کا شکار بہت پسند ہے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت کے مطابق،  کہا یہ جاتا ہے اور میڈیکل سائنس کی ایک رپورٹ ہے کہ تلور کا گوشت جنسی خواہشات کو بڑھانے کے لیے دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، سندھ اور پنجاب میں تلور کی بہت کم تعداد باقی ہے، یہ سردی سے بچنے کے لیے آتے ہیں لیکن معدومی کا سامنا ہے، اور یہ شہوانی طاقت کے حصول کے لیے نایاب پرندہ ہے اور جیسے ہی پرندے ان صحراﺅں کا رخ کرتے ہیں تو ان کے پیچھے پیچھے قطری شیوخ وہ بھی فوری پہنچ جاتے ہیں اور پہنچتے ضرور ہیں۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری