بھارتی تنظیم: کشمیریوں کی موجودہ حالت زار کی ذمہ دار دہلی حکومت


بھارتی تنظیم: کشمیریوں کی موجودہ حالت زار کی ذمہ دار دہلی حکومت

بھارت کی انسانی حقوق کی تنظیم "کَنسَرنڈ سٹیزنز کَلیکٹیو" کی ٹیم کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر کے عوام مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے خبر گیری نہ ہونے کے باعث مسلسل مصائب جھیل رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے تسنیم نے ڈان نیوز کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ بھارت کی انسانی حقوق کی تنظیم نے 12 سے 16 دسمبر تک کشمیر کا دورہ کیا۔

دورہ مکمل کرنے کے بعد تنظیم نے اپنے بیان میں کہا کہ "مظاہرین کے پتھراؤ اور اس کے جواب میں ریاست کی جانب سے گولیوں اور پیلٹ گنز استعمال کرنے کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں۔"

بیان کے مطابق زخمیوں میں سے زیادہ تر کو جسم کے اوپری حصے اور چہرے پر زخم آنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مشتعل مظاہرین پر گولیوں کا استعمال انہیں منتشر کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ انہیں ہلاک کرنے کا بینائی سے مستقل محروم کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔

تنظیم کے ٹیم اراکین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے، کیونکہ گولیوں اور پیلٹ گنز کا نشانہ بننے والے زیادہ تر متاثرین بچے ہیں اور ان میں سے بھی بیشتر بہت چھوٹے ہیں جو کسی مظاہرے کا حصہ نہیں بن سکتے۔

اراکین نے کہا کہ مرکزی حکومت کے اسی رویے اور بے حسی کی وجہ سے بھارت کی اقلیتوں، لبرلز اور غریب عوام میں خوف کا احساس پایا جاتا ہے، اس لیے ہم ان لوگوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے کھڑے ہیں اور پیلٹ گنز پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

تنظیم نے مزید مطالبہ کیا کہ بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں بچوں اور معصوم شہریوں کے خلاف پیلٹ گنز استعمال کرنے پر عوامی سطح پر افسوس کا اظہار کرے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ٹیم کے اراکین سے ملاقات کرنے والے کئی لوگوں نے سوال کیا کہ اگر کشمیری عوام کو واقعی بھارت کے برابر کے شہری ہونے کا درجہ حاصل ہے تو حکومت اور اس کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کیوں کشمیری عوام پر مظالم ڈھا رہی ہے، جبکہ ایسا ملک کے کسی حصے میں نہیں ہورہا۔

انسانی حقوق تنظیم کی یہ ٹیم تَپن بوس، ہَرش مَندر، پامیلا فلیپوس، دِنیش موہَن اور نَوشَرن کور پر مشتمل تھی جس نے کشمیر کے چار روزہ دورے کے دوران کئی کشمیریوں سے ملاقات کی۔

بیان کے مطابق ٹیم کے اراکین نے کُلگام، پلواما اور انَنتناگ میں زخمی بچوں سے لے کر بوڑھے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے 150 سے زائد افراد سے ملاقات کی۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری