پاکستان پھانسیاں دینے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک


پاکستان پھانسیاں دینے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک

حکومت نے 2 سال قبل آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور پر دہشت گردوں کے حملے میں طلبہ، اساتذہ اور فوجی اہلکاروں کی شہادت کے بعد سزائے موت پر عائد پابندی اٹھائی تھی۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، حکومت نے 2 سال قبل آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور پر دہشت گردوں کے حملے میں طلبہ،اساتذہ اور فوجی اہلکاروں کی شہادت کے بعد سزائے موت پر عائد پابندی اٹھائی تھی۔

ڈان نیوز نے رپورٹ دی ہے کہ پابندی اٹھائے جانے کے بعد 2 سال کے اندر پاکستان میں 419 قیدیوں کو پھانسیاں دیئے جانے کی وجہ سے اس وقت پاکستان پھانسیاں دینے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔

اے پی ایس حملے کے بعد حکومت نے نیشنل ایکشن پلان( نیپ) کے تحت پھانسیوں پر عائد 6 سالہ پابندی ہٹاتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی میں ملوث قیدیوں کو پھانسیاں دی جائیں گی، مگر محض تین ماہ بعد مارچ 2015 میں حکومت نے دہشت گردی کو روکنے کا جواز پیش کرتے ہوئے تمام قیدیوں کے لیے سزائے موت کی منظوری دی۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان(جے پی پی) کی کمیونیکیشن افسر رمل محی الدین کے مطابق حکومت کو نئی پالیسی پر عوامی بحث کا سامنا نہیں کرنا۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 کے بعد صرف 16 فیصد پھانسیاں دہشت گردی میں ملوث قیدیوں کو دی گئیں جن میں سے بہت ساری پھانسیاں نابالغ، جسمانی اور ذہنی معزور قیدیوں کو دی گئیں۔

جے پی پی کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ملک میں 88 فیصد دہشت گردی کے کیس ایسے ہیں جن کا دہشت گرد تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان کیسز کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل کرنے کا کوئی معقول سبب ہے۔

تنظیم کے مطابق نیشنل ایکشن پلان اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ پاکستان کے مجرمانہ انصاف کے نظام کو مزید بہتر بنایا جائے، نظام کی بہتری کے بغیر نیپ کامیاب نہیں ہوسکتا،اس وقت پاکستان کے مجرمانہ انصاف کا نظام پیچیدہ ہے۔

جے پی پی کا کہنا ہے کہ رواں برس مارچ سے صدر مملکت کے پاس رحم کی 444 اپیلیں جا چکی ہیں مگر تاحال صدر نے درخواستوں پر معافی نہیں دی ہے۔

رمل محی الدین کے مطابق قیدیوں کی جانب سے صدر کو بھیجی جانے والی معافی کی اپیل محض تین لائنوں پر مشتمل ہوتی ہے جس وجہ سے صدر کو فیصلے کرنے میں دشواری ہوتی ہے، جب کہ حکومت قیدیوں کی معافیوں کی اپیلیں بہتر انداز میں لکھنے کے لیے وکلاء کو ہدایات جاری نہیں کرتی۔

رمل کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مجرمانہ انصاف متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے ان کے خلاف دھاندلی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جے پی پی مجرمانہ انصاف کی خرابیوں اور اس میں بہتر تبدیلیاں لانے کے لیے سماجی و اقتصادی شخصیات سے مشورے لے رہی ہے۔

رمل محی الدین نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ عام قیدیوں کے لیے بھی سزائے موت کی پابندی اٹھائے جانے کے فیصلے پر عوام کی خاموشی کو عوام کی خواہش سمجھنا غیر منصفانہ عمل ہے۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اے پی ایس سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے نام پر ریاست کی جانب سے زندگیاں چھیننا اے پی ایس حملے میں ہلاک شدگان کی توہین ہے کیوں کہ ان کی موت کے باوجود دہشت گردی کے خاتمے پر کوئی اثر نہیں پڑا، سزائے موت پر پابندی ہٹائے جانے کے باوجود رواں برس دہشت گردی کے بدترین واقعات پیش آئے۔

جے پی پی کی ترجمان رمل نے کہا کہ مجرمانہ انصاف کے خراب نظام کے باعث بہاول پور کے 2 بھائیوں کو 11 سال بے گناہ قید کرنے کے بعد انہیں پھانسی پر لٹکادیا گیا اور سپریم کورٹ نے انہیں ان کی سزائے موت کے ایک سال بعد بری کیا جب کہ ایک اور بے گناہ قیدی کئی سال قید میں گزارنے کے بعد جیل میں چل بسا۔

رمل محی الدین کے مطابق گزشتہ برس پھانسی پر لٹکایا جانے والا آفتاب بہادر جرم کرتے وقت نابالغ تھا، اسی طرح معین الدین اور اعظم کو بھی پھانسی دی گئی جب کہ 2014 سے اب تک 100 ایسے افراد کو پھانسیاں دی گئیں جو نابالغ، ذہنی اور جسمانی معزور تھے، پھانسی پر لٹکایا جانے والا منیر حسین ذہنی معزور تھا اور ایسے کئی قیدیوں کو سزائے موت دی گئی جنہوں نے 11 سے 14 سال جیل کی قید میں گزارے۔

جے پی پی کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق پاکستانی قانون کے تحت ریلوے نظام کو درہم برہم کرنے اور ڈرگ اسمگلنگ سمیت 27 جرائم پر پھانسی دی جا سکتی ہے۔

تنظیم کے مطابق پاکستان میں سال 2007 سے 2015 تک سالانہ 258 قیدیوں کو پھانسیوں کی سزائیں دی گئیں، جس وجہ سے ملک پھانسیوں کی سزائیں دینے والے بڑے ملکوں کی فہرست میں شامل ہوا۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ مجرمانہ انصاف کا نظام پھانسیاں دینے کے لیے بے تاب ہے جب کہ کرپشن، اثر و رسوخ، دولت اور اقتدار کی طاقت استعمال کرنے کے باعث ملک کا قانونی ڈھانچہ ناقابل یقین حد تک ناقص ہوچکا ہے جس وجہ سے انصاف کی فراہمی ناممکن ہوچکی ہے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری