دہشتگردی کیخلاف جنگ، 29 نئی سول آرمڈ فورسز بنانے کا فیصلہ


دہشتگردی کیخلاف جنگ، 29 نئی سول آرمڈ فورسز بنانے کا فیصلہ

وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 110 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، 3 برسوں میں دہشت گردی کیخلاف 300 ارب روپے خرچ ہوئے، 29 نئی سول آرمڈ فورسز قائم کریںگے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 110 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، 3 برسوں میں دہشت گردی کیخلاف 300 ارب روپے خرچ ہوئے، 29 نئی سول آرمڈ فورسز قائم کریںگے، کوشش ہے نیا این ایف سی ایوارڈ آئندہ بجٹ سے پہلے نافذ ہوجائے، مردم شماری کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

اجلاس میں نیشنل سیکورٹی فنڈ کے قیام اور فاٹا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کیلیے 4 فیصد فنڈز مختص کرنے پر اتفاق نہ ہوسکا، صوبوں نے مشاورت کیلیے وقت مانگ لیا، آئندہ ماہ دوبارہ اجلاس ہوگا۔

وفاق اور صوبوںکے درمیان قومی محاصل کی صوبوں میں تقسیم کے مجوزہ نئے فارمولے کے تحت قابل تقسیم محاصل کے پُول سے صُوبوں کے حصے میں 140 ارب روپے کی کمی جبکہ وفاق کے شیئر میں 120 ارب روپے کے لگ بھگ اضافے کا امکان ہے البتہ شرح کے لحاظ سے وفاق اور صوبوں کے حصے میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوگی اور این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کا حصہ 57.5 فیصد سے کم نہیں ہوگا اور وفاقی کا42.5 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا البتہ رقم کی مد میں صوبوں کے شیئر میں کمی واقع ہو گی۔

قومی مالیاتی کمیشن کا تیسرا اجلاس وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کی زیر صدارت ہوا جس میں چاروں صوبوں کے نمائندے شریک ہوئے، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ شریک نہیں ہوئے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحق ڈار نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ نیا این ایف سی ایوارڈ اگلے بجٹ سے پہلے پہلے فائنل ہوکر نافذ العمل ہو جائے اور اگلے بجٹ میں قابل تقسیم محاصل پُول سے صوبوں کو حصہ فراہم کیا جائے۔

این ایف سی ایوارڈ کو مردم شماری کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا ہے۔ اگر ایوارڈ ہو جاتا ہے تو مردم شماری ہونے کے بعد اس کے نتائج کا اگلے پانچ سال تک قابل تقسیم محاصل کی تقسیم پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔

اسحق ڈار نے کہا کہ اجلاس میں خام قابل تقسیم محاصل کا تین فیصد نیشنل سیکیورٹی فنڈ اور چار فیصد فنڈز فاٹا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کیلیے مختص کرنے پر بات ہوئی ہے تاہم اس پر مزید کوئی تبادلہ خیال نہیں ہوا، صوبوں نے مشاورت کیلیے وقت مانگا ہے۔ صوبے اس بارے میں اپنے وزرائے اعلیٰ اور حکومتی عہدیداروں سے مشاورت کرکے جنوری میں ہونیوالے این ایف سی کے اجلاس میں اپنی ان پُٹ دیں گے۔

خام قابل تقسیم محاصل کا تین فیصد حصہ دس سال کیلئے فاٹا کی ترقی کیلئے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے بعد میں گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کو بھی شامل کرنے کی تجویز آئی جس پر یہ تین فیصد سے بڑھا کر چار فیصد کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ چار فیصد شیئر کی مزید تقسیم کا بھی فارمولا طے ہوگا کہ فاٹا کو کتنا ملنا ہے اور گلگت بلتستان و آزاد جموں و کشمیر کو کتنا ملنا ہے۔

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو این ایف سی سے فنڈز فراہم کرنے سے بین الاقوامی سطع پر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے حوالے سے کوئی اثرات مرتب نہیں ہونگے۔ اس وقت این ایف سی کے تحت ایک فیصد پہلے سے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں کے پی کے کو مل رہا ہے، نئے این ایف سی ایوارڈ میں خام قابل تقسیم محاصل میں سے آٹھ فیصد نیشنل سکیورٹی فنڈ کے قیام اورفاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے مختص کرنے کی تجویز ہے اس کے بعد جو بانوے فیصد بچے گا وہ خالص قابل تقسیم محاصل ہونگے اس میں سے صوبوں کا حصہ 57.5 فیصد سے کم نہیں ہوگا اور وفاقی کا 42.5 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ مردم شماری میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار فوج استعمال ہوئی تھی، اب مردم شماری کیلئے فوج نے بیالیس ہزار جوانوں کی خدمات فراہم کرنیکی یقین دہانی کرا دی ہے۔ لہٰذا مارچ 2017 سے مرحلہ وار مردم شماری شروع کر دی جائے گی جو کہ مئی تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔

مردم شماری کا عمل آئندہ سال 15 مارچ سے بیک وقت چاروں صوبوں میں شروع کیا جائیگا۔ اجلاس میں صوبوں نے ٹیکسوں سے متعلق اپنی اپنی تجاویز پیش کیں۔ گزشتہ تین سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تین سو ارب روپے خرچ کئے ہیں، آئندہ تین سے چار سال میں سکیورٹی اخراجات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے، اٹھائیس نئی سول آرمڈ فورسز قائم کی جاچکی ہیں جبکہ اُنتیس مزید نئی سول آرمڈ فورسز قائم جارہی ہیں اور ان کی تکمیل کے بعد مزید اڑتالیس آرمڈ سول فورسز کے ونگز کی ضرورت ہوگی جسکے قیام کا عمل شروع ہو جائیگا۔

بلوچستان سے ممبر این ایف سی قیصر بنگالی نے وزیرخزانہ کی تائید کرتے ہوئے کہا نئے این ایف سی ایوارڈ کے تحت شرح کے لحاظ سے صوبوں کا حصہ کم نہیں ہو گا مگر قابل تقسیم محاصل کے پُول کا حجم کم ہونے سے رقم کی مد میں صوبوں کے حصے میں کمی ضرور واقع ہوگی کیونکہ جب آٹھ فیصد خام قابل تقسیم محاصل سے نکال لیا جائیگا تو باقی ماندہ بیانوے فیصد سے صوبوں کو شیئر ملے گا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری