کیا تلور کے خاتمے پر ماتم کرنا جبکہ اس کے شکاریوں کےلئے ریڈ کارپٹ بچھانا کھلا تضاد نہیں؟


کیا تلور کے خاتمے پر ماتم کرنا جبکہ اس کے شکاریوں کےلئے ریڈ کارپٹ بچھانا کھلا تضاد نہیں؟

غریب عوام کے زمینوں کو خراب کرنے، اہم شخصیات کی جانب سے شدید تنقید اور عربوں کی پاکستان میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کے باوجود حکومت کی جانب سے تلور کے شکاریوں کے لئے ریڈ کارپٹ بچھانا اور پھر دوسری طرف اس نایاب پرندے کے تحفظ کے لئے کروڑوں کا قومی فنڈ جاری کرنا کیا کھلا تضاد نہیں؟

خبر رساں ادارے تسنیم کی رپورٹ کے مطابق، وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے اہم سیاسی و مذہبی شخصیات کی جانب سے تلور کے شکار پر شدید تنقید، عوام کے رد عمل اور عربوں کی پاکستان میں غیراخلاقی سرگرمیوں کے بے نقاب ہونے کے بعد دباؤ کو کم کرنے کی خاطر تلور کے تحفظ کے لئے قومی خزانے سے 25 کروڑ کی خطیر رقم جاری کی ہے جبکہ دوسری جانب اس کے شکار کے لئے عرب شیوخ کو ہر سال ریڈ کارپٹ بچھایا جاتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق، فنانس ڈویژن نے پاکستان میں نایاب پرندے تلور اور ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کے انڈوومنٹ فنڈ کے لیے 25 کروڑ روپے جاری کردیئے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ رقم وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر جاری کی گئی۔

ذرائع کے مطابق فنڈ کی منظوری وزیر اعظم نے اکتوبر میں دی تھی، جس کا مقصد ہجرت کرکے آنے والے پرندوں بالخصوص نایاب پرندے ’تلور‘ کی افزائش کو بڑھانا ہے۔

فنڈز ملک میں ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی آبادی بڑھانے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔

یاد رہے کہ معروف اینکر پرسن ڈاکٹر عامر لیاقت نے گزشتہ ہفتے دعویٰ کیا تھا کہ حیرت انگیز طورپر عرب شیوخ کی بیگمات ان کے ساتھ نہیں ہوتیں لیکن وہ خود آتے ہیں، یہ کیوں نہیں ہوتیں؟ ان کی بیگمات کو تلور کیوں پسند نہیں، یہ ہمارے لیے بہت گہرا سوال ہے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت نے اس دوران عرب شیوخ پر پاکستان میں شکار کے دوران غیر اخلاقی سرگرمیوں کا الزام بھی لگایا تھا جبکہ دوسری جانب عوام نے عربوں کی آمد پر رعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ تلور کے شکار کے دوران ان کی فصلیں ضائع ہوجاتی ہیں اور حکومت کی جانب سے عربوں کو شکار کے لئے زمینیں الاٹ کرنا غریب عوام کے ساتھ ظلم ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کے عوام نے مختلف علاقوں میں مظاہرے بھی کئے ہیں تاہم عرب شیوخ کا غیر اخلاقی سرگرمیوں کے سلسلے میں بدنامی سمیت مختلف موانع کے باوجود شکار کے لئے پاکستان آنا ایک عام انسان کی سوچ سے بالاتر ہے۔

ایک جانب حکومت تلور کے تحفظ اور اس کی آبادی بڑھانے کے لیے فنڈز جاری کر رہی ہے، تو دوسری جانب عرب معززین کو ان کے شکار کے لیے اجازت نامے جاری کیے جارہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت نے عالمی طور پر تحفظ شدہ تلور کے پنجاب اور بلوچستان میں شکار کے لیے 3 سعودی شہزادوں کو خصوصی اجازت نامے جاری کیے تھے۔

یہ اجازت نامے حاصل کرنے والوں میں گورنر تبوک اور سعودی عرب کے سابق بادشاہ سعود بن عبدالعزیز السعود مرحوم کے دو بیٹے شامل تھے۔

قبل ازیں نومبر میں قطری شاہی خاندان کے افراد کو بھی تلور کے شکار کے لیے اجازت نامے جاری کیے گئے، جو ان دنوں شکار کے سلسلے میں پاکستان کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔

تلور کو ناصرف عالمی طور پر تحفظ حاصل ہے بلکہ جنگلی حیات کے تحفظ کے ملکی قوانین کے تحت بھی ان کے شکار پر پابندی عائد ہے لیکن پاکستانی حکام عرب شیوخ کے بارے میں دوہری پالیسی کے شکار ہیں۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری