ہندوستان میں ریاض اور تل ابیب کی حرکتوں کی تفصیلات/ میڈیا کو خریدنے سے لیکر بالیووڈ میں سرمایہ کاری تک


ہندوستان میں ریاض اور تل ابیب کی حرکتوں کی تفصیلات/ میڈیا کو خریدنے سے لیکر بالیووڈ میں سرمایہ کاری تک

بھارت سے آنے والے میڈیا ٹیم نے تسنیم نیوز کے مرکزی دفتر تہران میں آل سعود و آل یہود کی جانب سے بھارتی ذرائع ابلاغ اور بالیووڈ میں اثر و رسوخ اور ہندوستانی ثقافت کے ساتھ ساتھ بھارتی عوام کے عقائد پر یلغار کرنے کا انکشاف کیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، بھارتی میڈیا سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکنوں نے گزشتہ دنوں تسنیم نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر تہران کا دورہ کیا اور اس ایجنسی کی خبروں اور اطلاع رسانی کے طریقہ کار کو مشاہدہ کیا۔

بھارتی ٹیم کے اس وفد میں مختلف خبر رساں اداروں، ٹی وی چینلز اور جریدوں بشمول انگریزی جریدہ دی لیڈرز، زی سلام اور دی نیشتنل گزٹ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔

بھارت کی شیعہ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے صدر بھی اس وفد کے ہمراہ تھے۔

اس وفد کے شرکاء نے اسلامی جمہوریہ ایران میں اپنی موجودگی کو خوشائند قرار دیا اور ایرانی میڈیا بالخصوص اردو خبر رساں ایجنسیوں کو برصغیر کے بارے میں بہترین کوریج پر حراج تحسین پیش کیا اور تاکیس کی کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان میں ایسا کوئی ادارہ وجود نہیں رکھتا جو اصل حقائق کو ان کے ملک منتقل کرے۔

انہوں نے صہیونیوں کی جانب سے بھارت میں اسلام ہراسی پر مبنی سرگرمیوں اور آل سعود کی بھارتی میڈیا پر اثرانداز ہونے سے متعلق انکشافات کئے اور کہا: مغربی میڈیا بھارتی میڈیا پر مکمل طور پر غالب ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستانی میڈیا مغرب کے زیر اثر ہے جو اصل حقائق کو عوام تک پہنچانے سے قاصر ہے اور جس طرح چاہے اسی طریقے سے اپنی پالیسیوں کو بھارتی عوام میں منتقل کر دیتے ہیں۔

مغربی ذرائع ابلاغ کا بھارتی میڈیا پر غلبہ اور سعودیوں کے ڈالر

بھارت کے سوشل میڈیا پر ایک سرگرم طالب علم فیروز احمد ربانی کا تسنیم کے دفتر میں کہنا تھا: بھارتی میڈیا مکمل طور پر مغرب کے زیر اثر ہے اور بھارتی ذرائع ابلاغ صرف اور صرف پیسوں کے لئے کام کرتے ہیں۔ وہ نہایت آسانی سے پیسوں کی خاطر جھوٹی خبر بناکر شائع کردتے ہیں، بلیک میلنگ کرتے ہیں اور افسوس کے ساتھ ایسی تحاریک بھارتی ذرائع ابلاغ میں شدت کے ساتھ فروغ پائے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: آل سعود بھارتی ذرائع ابلاغ کو بے تحاشا رقم دیتے ہیں، آل سعود ہر کسی کو جس کے کم سے کم ایک ہزار سے زائد فالورز ہوں، زیادہ پیسے دیتے ہیں تاکہ وہ سعودی پالیسیوں کی ملک بھر میں تبلیغ کریں۔ حال ہی میں امور حرمین شریفین سے تعلق رکھنے والے ایک اعلی مذہبی عہدیدار نے بھارت کا دورہ کیا، انہوں نے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں قیام کیا تھا اور وہ افراد جو چھوٹے موٹے نیوز سائٹ چلا رہے ہیں، کو اعلان کیا کہ جو بھی ادارہ سعودی نیوز ایجنسی "العربیہ" سے نقل کرکے خبریں لگائے گا، ان کو ماہانہ 1200 ڈالر دئے جائیں گے۔

ربانی نے مزید کہا: سعودی بھارتی ذرائع ابلاغ میں بے تحاشا رقم خرچ کر رہے ہیں کیونکہ ہندوستان میں روزناموں کا  و رسوخ زیادہ پایا جاتا ہے۔ 30 سے 40 سال کے اوپر کے لوگ اکثر روزنامے پڑھتے ہیں اور اسی لئے روزناموں کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ اکثر اردو زبان کے خبر رساں اداروں کو مسلمان سمجھا جاتا ہے اسی لئے سعودی حکام بھارتی ذرائع ابلاغ پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ العربیہ کی خبروں کو کوریج دیں۔

انہوں نے کہا: مثال کے طور پر، العربیہ نے ایک سال قبل ایک خبر شائع کی تھی کہ تہران نے اہل سنت سے تعلق رکھنے والی ایک مسجد کو منہدم کردیا، یہ خبر جونہی شائع ہوئی تو ہندوستان کے بعض روزناموں نے آدھے صفحہ جبکہ بعض نے مکمل صفحے کو اس خبر کیلئے مختص کیا تو ان ڈالرز کا نتیجہ تھا جو سعودی ان کو دے رہے ہیں۔  

اس خبر کے بعد صورتحال یہاں تک پہنچی کہ ہندوستان کے وہابیوں نے ایرانی سفارتخانے کے سامنے مظاہرہ کیا جو صرف اور صرف العربیہ کے اس جھوٹی خبر کا نتیجہ تھا۔

بھارتی وفد میں شریک اس سرگرم رکن کا مزید کہنا تھا: دوسرا موضوع حلب سے متعلق ہے، بھارتی اخباروں نے جو سعودی فنڈنگ سے چلتی ہیں، حلب کی آزادی کے بعد اور دہشتگردوں کے انخلاء کے موقع پر وہ تصاویر شائع کیں جس میں خود دہشتگردوں نے مظالم کئے تھے اور ہندوستانی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ یہ مظالم شام کی سرزمین پر حزب اللہ اور ایران کی جانب سے ڈھائے گئے ہیں۔

اسی طرح اس کوریج کا نتیجہ بھی وہی نکلا اور سعودی حمایت یافتہ میڈیا ادارے اور متعدد افراد دہلی میں موجود شامی سفارتخانے کے گرد جمع ہوگئے۔
اس وفد میں موجود ایک اور صحافی سید عینین علی حق نے کہا: بھارتی اخبار سوائے پیسوں کے کوئی ہدف نہیں رکھتے اور جو ادارے ہندوستانی معاشرے میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں وہ بھی ایسی ہی شخصیات کے زیر دست ہیں جو صرف پیسے کی خاطر کام کرتے ہیں۔

بھارتی صحافی کے مطابق، آل سعود وہابیت کی ترویج و تبلیغ کے لئے مختلف حربوں کا استعمال کرتے ہیں جن میں ذرائع ابلاغ سرفہرست ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ اہل سنت وہابیت سے نفرت کرتے ہیں اور صرف سلفی سوچ کے حامل لوگ وہابیت کے نزدیک ہیں۔ ہندوستان کے بعض ذرائع ابلاغ کا دہلی میں سعودی سفارت کے ساتھ نزدیک روابط ہیں اور اسی سفارت نے ان اداروں کو فعال کیا ہے۔

بھارتی میڈیا ٹیم نے تسنیم کے دفتر میں نیوز کانفرنس کے دوران تاکید کی کہ "ہم بھارتی ذرائع ابلاغ میں کارکنوں کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، بھارت میں کوئی بھی اداری ایسا نہیں جو اسلام سے متعلق حقائق پر مبنی رپورٹ پیش کرے، ان کا مقصد اسلام ناب محمدی کا پرچار نہیں اور اس سلسلے میں ہم کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں جس طرح کہ ہم نے بتایا کہ ہم صرف اور صرف کارکن ہیں اور اثر و رسوخ نہیں رکھتے۔"

ان کا کہنا تھا: بھارتی ذرائع ابلاغ کا مقصد حقائق کو عوام تک پہنچانا نہیں بلکہ کچھ اور ہے، ہندوستان میں میڈیا پیسے کمانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اور اسی طرح ذرائع ابلاغ پر نظارت کا مسئلہ بھی سنجیدہ نہیں ہے۔

فیروز ربانی نے تسنیم سے کہا: بھارت میں صرف چند ایک جیسے کہ ہم اعلی ارادے رکھتے ہیں اور اپنے اہداف کو سوشل میڈیا کے ذریعے حاصل کرتے ہیں، مثلا ہم فیس بک پر سرگرم ہو جاتے ہیں اور اصل حقائق کو لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں۔

انہوں نے تاکید کہ بھارتی شیعہ اصل اور حقیقت پر مبنی خبریں ایرانی میڈیا سے دریافت کرتے ہیں کیونکہ مغربی اور عربی میڈیا پر اب اعتماد نہیں رہا اور خبروں کو صرف اپنے مفادات کی خاطر یکطرفہ پیش کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں ہماری سب سے بڑی مشکل کسی مستقل نیوز چینل کا نہ ہونا ہے، ایرانی پریس ٹی وی کے بھارت میں بہت زیادہ فالورز ہیں۔

ربانی نے اسی طرح بعض آل سعود و آل یہود کے حمایت یافتہ بھارتی میڈیا چینلز کی ایران ہراسی اور ہندوستانی قوم میں ایران خلاف منفی تاثرات پیدا کرنے کی کوششوں کی خبر بھی دی۔

اس وفد میں شامل ایک اور صحافی خالد ایوب نے کہا: بھارت میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس لوگوں تک اصل حقائق پہنچانے کیلئے کوئی چینل موجود نہیں ہے۔

انہوں نے اقلیتوں کے لئے ایک اور مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے لئے ایک مسئلہ زبان کا بھی ہے، بھارتی مسلمان اردو زبان سیکھنے کے خواہان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کو میڈیا کی خبروں کے طریقہ کار سے کوئی سروکار نہیں جبکہ انتخابات کے موقع پر ان سے مالی تعاون بھی کرتی ہے۔

صہیونیوں کا بھارتی ثقافت پر یلغار، بالیووڈ میں سرمایہ کاری

فیروز ربانی نے وضاحت کی: صہیونیوں نے بالیووڈ میں بے تحاشا سرمایہ کاری کی ہے، ان کے دو مقاصد ہیں، ایک آمدنی اور دیگر اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ مفادات کا حصول، صہیونیوں کا مقصد بھارتی ثقافت اور عوام کے عقائد میں اثر و رسوخ پیدا کرنا ہے، صہیونیوں نے اس سلسلے میں کافی سرمایہ کاری کی ہے۔

ربانی نے مزید کہا: صہیونی نہ صرف بالیووڈ فلموں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں بلکہ ایک سیٹلائٹ چینل کا بھی آغاز کیا ہوا ہے، صہیونیوں کی جانب سے بالیووڈ اور ذرائع ابلاغ میں سرمایہ کاری کا اصل مقصد اسلام اور ایران ہراسی ہے۔

بھارتی میڈیا ٹیم کے مطابق، صہیونی حتی بھارتی ڈراموں میں بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری