سعودی اتحاد اسلامی نہیں بلکہ ایک فرقہ کا اتحاد ہے/ بلاگرز کی جبری گمشدگیاں ریاست اور ایجنسیوں کا اچھا رویہ نہیں ہے


سعودی اتحاد اسلامی نہیں بلکہ ایک فرقہ کا اتحاد ہے/ بلاگرز کی جبری گمشدگیاں ریاست اور ایجنسیوں کا اچھا رویہ نہیں ہے

پاکستان کے معروف تجزیہ کار، دانشور اور مصنف نے سعودی اتحاد کو ایک فرقہ کا اتحاد قرار دیتے ہوئے اس میں ایران کو شامل کرنے پر تاکید کی اور کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ تاثر پیدا ہوگا کہ یہ اینٹی شیعہ الائنس ہے۔ انہوں نے بلاگرز کی جبری گمشدگیوں پر ریاست اور ایجنسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

سلمان عابد پاکستان کے سیاسی، صحافتی، علمی اور اہل دانش طبقات میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں وہ مختلف پبلک اور نجی یونیورسٹیوں میں میڈیا اور سماجی علوم پر درس و تدریس سے بھی وابستہ ہیں پانچ کتابوں کے مصنف ہیں انکا تجزیاتی انداز جذباتی کم اور دلیل و عقلی بنیادوں پرہوتا ہے تسنیم نیوز نے ان سے حالات حاضرہ کے حوالے سے لاہور میں ایک نشست کی جس کا متن حاضر خدمت ہے۔

تسنیم نیوز: پاکستان میں انتہا پسندی کے کونسے محرکات ہیں؟

سلمان عابد: پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی دو سے تین دہائیوں کا کھیل ہے یہ اچانک پیدا نہیں ہوئی ہے اس میں ہماری ریاست، مذہبی جماعتوں اور حکمرانوں کی شعوری غلطیاں ہیں جس کی وجہ سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو سنجیدہ مسئلہ نہیں سمجھا گیا اور اپنے مطابق ڈیل کرتے رہے اور نتیجہ میں یہ ایک بڑا جن بن کر ریاست کے نظام کو چیلنج کر دیا ریاست دہشت گردی سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے یاد رکھئے پہلا مسئلہ انتہا پسندی کا ہے کیونکہ انتہا پسندی کے نتیجہ میں دہشت گردی پیدا ہوتی ہے۔ انتہا پسندی کی وجہ مذہبی کے ساتھ ساتھ لسانی اور علاقائی مسائل بھی ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ریاستی نظام کی ناکامی ہے کیونکہ جب ریاست بنیادی حقوق سلب کرے گی تو اس کے نتیجہ میں بھی انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو بنیادی سہولیات دے اگر نہیں دے گی تو لوگوں میں محرومی کا احساس پیدا ہوگا اور انتہا پسندی جنم لے گی سیاسی جماعتوں کے کام نہ کرنے کی وجہ سے مذہبی جماعتو ں نے فائدہ اٹھایا اور لوگوں کو اس بات سے باور کروایا کہ جمہوریت کوئی حل نہیں ہے اسلامی انقلاب حل ہے اور یہ ہمیں ووٹ کی بجائے بندوق کے زور پر لانا ہوگا۔

تسنیم: اگر ریاست بنیادی حقوق دینے میں ناکام ہوگی تو سوال کرنے کے نتیجہ میں بلاگرز کو اٹھانے کے معاملہ پر کیا کہتے ہیں؟

سلمان عابد: بلاگرز کو اس لئے اٹھایا گیا کہ وہ کچھ سوالات اٹھاتے تھے تو یہ ہماری ریاست کا کوئی اچھا رویہ نہیں ہے۔ اگر ایجنسیوں کے پاس ان بلاگرز کے حوالے سے شکایات ہیں تو غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئے اور اعتراف بھی کیا جانا چاہئے کہ ہم نے ان کو گرفتار کیا ہوا ہے۔ بلاگرز کو بھی اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ہم ایک ریاست میں رہتے ہیں جہاں بولنے کی آزادی ہے وہاں کچھ ذمہ داری بھی ہے۔ وہ ریاست کے نظام کو چیلنج کریں سوالات بھی اٹھائیں لیکن اس میں طریقہ کار ایسا ہو کہ یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ ہم شاید کچھ ریاست کے خلاف کام کررہے ہیں ہماری ادائیگی میں الفاظ کی غلطیاں ہوتی ہیں اس سے یہ ظاہر نہ ہو کہ ہم ریاست کے خلاف ہیں بلکہ ریاست میں جو غلطیاں ہورہی ہیں اس کے خلاف ہیں۔ اس طرح کی کارروائیوں سے یہ تاثر جاتا ہے کہ ادارے سچ بولنے سے روکتے ہیں۔

تسنیم: پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری کیوں ممکن نظر نہیں آتی ہے؟

سلمان عابد: خارجہ پالیسی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اس میں کوئی دوستی دشمنی نہیں ہوتی بلکہ ایک دوسرے کے مفادات سے جڑی ہوتی ہیں۔ ایران ایک برادر اسلامی ملک ہے۔ ہمیں اسلامی ملک کے ساتھ ان کے مفادات کو بھی تقویت دینی ہوگی اس سے معاملات آگے بڑھیں گے بنیادی طور پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان، افغانستان اور ایران کے ساتھ کچھ معاملات پر تعلقات خراب ہیں۔ علاقائی معاملات میں ہمیں یہ بات طے کرنی ہوگی کہ ہمیں دوستی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا کسی کی لڑائی میں کودنا نہیں ہے یعنی میں سعودی عرب کی بات کر رہا ہوں۔ سعودیہ سے تعلقات اچھے رکھنے ہیں لیکن اتنے نہیں کہ اس کی وجہ سے ایران سے تعلقات خراب ہوجائیں اس لئے سب کو برابر ساتھ لیکر چلنا چاہئے۔ سی پیک میں ایران بھی شامل ہونا چاہتا ہے۔

تسنیم: ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے سمیت دیگر معاملات کیوں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچے؟

سلمان عابد: پاکستان کے بارے میں پروپیگنڈہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ افغانستان ہمارا دوست تھا اس کی پاکستان کے بارے بدگمانی پیدا ہوئی اور اب وہ ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایران ہمارا دوست تھا یعنی ہمارے ہاں بداعتمادی کی فضاء بہت زیادہ ہے۔ اس بد اعتمادی کی فضاء کو ختم کرنے کے لئے کچھ اقدامات پاکستان اور کچھ ایران کو اٹھانے ہونگے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا المیہ یہ ہے کہ ہمارا وزیر خارجہ تک نہیں ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں جارہا بلکہ اس کو پارٹ ٹائم سمجھا جارہا ہے فل ٹائم وزارت خارجہ نہیں چلا رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کے اندر موجود لوگوں کے اپنے مسائل ہیں اس کے بعد سول ملٹری تعلقات ہیں۔ فوج معاملات کو کسی اور جبکہ حکومت کسی اور طریقہ سے چاہتی ہے۔ ہماری فوج اور ہماری حکومتیں کسی ایک ایشو پر اتفاق نہیں کرتیں۔ ہندوستان، افغانستان اور ایران کے بارے میں دو مختلف رائے ہیں۔ جو مسائل کا سبب بنتی ہیں۔ سی پیک کے حوالے سے خطہ میں تبدیلیاں آرہی ہیں تو ہمارے کچھ اندرونی مسائل ہیں ان کو ماننا چاہئے پہلے ہمیں اپنے گھر کی صفائی تو کرنی ہوگی۔ جس کی وجہ سے ہماری فارن پالیسی میں مشکلات پیدا ہورہی ہیں افغانستان پاکستان پر نقصان پہنچانے کا الزام لگاتا ہے جبکہ ہندوستان یہ کام پہلے سے ہی انجام دے رہا ہے۔ افغانستان اور بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا پاکستان کیخلاف گٹھ جوڑ ہے۔ اس کے بعد پاکستان میں ایک قوت ایسی ہے جو ثابت کر رہی ہے کہ ایران پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے جبکہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں ایسی با ت نہیں ہے۔ ان تمام مسائل سے نکلنے کے لئے ایک بابصیرت لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنی ویژنری لیڈرشپ سے محروم ہے جبکہ پاکستان کی سیاست کرپشن، بدعنوانی میں الجھی ہوئی ہے اور خارجہ پالیسی پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ پاکستان کی سفارت کاری ہمیں تنہائی کا شکار کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ علاقائی قوتیں ہندوستان کی بات زیادہ سنتے ہیں۔ معاشی اعتبار سے کمزور ملکوں کی خارجہ پالیسی کمزور ہوتی ہے اور دوسرے بڑے ملکوں پر انحصار کرتے ہیں۔

تسنیم: پاکستان کا آئندہ سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا جبکہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں متحرک نظر آتی ہیں؟

سلمان عابد: پاکستان کا آئندہ کا سیاسی منظرنامہ کا انحصار پانامہ کیس پر ہے۔ پانامہ کا فیصلہ نوازشریف کے خلاف آتا ہے تو اس کا سیاسی فائدہ عمران خان الیکشن میں اٹھائے گا۔ کیونکہ لیڈر پر کرپشن کا الزام ثابت ہونے پر ن لیگ کی سیاست پر برا اثر ہوگا۔ اور اگر پانامہ کیس کا فیصلہ نوازشریف کے حق میں آتا ہے تو تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پانامہ کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ الیکشن پر اثر انداز ہوگا۔ پاکستان عدم استحکام کا شکار رہے گا انتخابات میں بھی کرپشن، پانامہ وغیرہ کا تذکرہ رہے گا مجھے نہیں لگتا پاکستان کی سیاست میں آئندہ چند برسوں میں بہتر تبدیلی کا امکان موجود ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے علاوہ پنجاب میں کچھ ن لیگ کے ساتھ مرکز سمیت جوڑتوڑ کرے گی۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں کوئی بڑا معرکہ مارے گی کچھ ایسا نظر نہیں آتا۔ زرداری صاحب امریکہ لابی میں اپنا اثر رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ وہ بڑھ جائے گا لیکن نیچے ووٹ بینک میں اضافہ نہیں ہوگا اور نا ہی بلاول کا کارڈ چلے گا کیونکہ وہ زرداری صاحب نے ختم کردیا ہوا ہے اور تمام اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ عمران خان اپنی تمام سیاست پانامہ کے گرد گھمائے گا اسلئے پانامہ سے نواز شریف کی جان نہیں چھوٹنے والی ہے۔

تسنیم: اسلامی ممالک کے اتحاد میں ایران کو شامل کئے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ ممکن نظر آتی ہے؟

سلمان عابد: میرے خیال میں یہ اسلامی اتحاد نہیں ہے۔ یہ ایک فرقہ کا اتحاد ہے اور یہ سعودی اور سنی الائنس ہے۔ اگر اس کی اہمیت ہے تو پھر یہ تاثر نہیں دینا چاہئے کہ اس میں ایک فرقہ کے لوگوں کو شامل کیا جائے۔ جس سے شیعہ کمیونٹی میں ری ایکشن پیدا ہورہا ہے۔ پاکستان میں بہت زیادہ تعداد میں اہل تشیع آباد ہیں یہ تاثر نہیں دینا چاہئے کہ پاکستان سعودی عرب کی گود میں گرگیا ہے۔ راحیل شریف نے جو کہا ہے کہ ایران کو شامل کرنے کی صورت میں وہ جائیں گے تو یہ ایک اچھا عمل ہوگا لیکن اگر ایران شامل نہیں ہوتا تو یہ تاثر پیدا ہوگا کہ یہ اینٹی شیعہ الائنس ہے۔ میں نہیں سمجھتا پھر اس کا کوئی فائدہ ہوگا میں یہ سمجھتا ہوں اس میں نہیں جانا چاہئے۔ پاکستان کو اپنے رول میں اپنے کردار میں یہ تاثر نہیں دینا چاہئے کہ وہ اس میں گودے گا کیونکہ یہ ایک فرقہ وارانہ لڑائی ہے یہ بین لااقوامی کوشش ہے کہ مسلمانوں میں فرقہ کی بنیاد پر لڑائی کروائی جائے ہمیں خطہ میں اس لڑائی سے اجتنا ب کرنا چاہئے عراق شام میں جو کچھ ہوا ہے اس سے بہتر نتائج نہیں آنے والے ہیں ہمارا رول نیوٹرل ہونا چاہئے۔

تسنیم: مشرق وسطی میں امریکہ شکست کھارہا ہے مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟

سلمان عابد: ٹرمپ نے کہا ہے کہ افغانستان اور عراق میں قبضہ کی جنگ غلط تھی اور ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہئے تھی اگر وہ ان جنگوں سے باہر آتے ہیں تو یہ ایک مثبت عمل ہوگا بصورت دیگر اگر سی آئی اے کی پالیسیاں لیکر چلتے ہیں تو اس سے نیا منظرنامہ سامنے آئیگا، مشرق وسطی میں امریکہ کی پالیسیوں کے ردعمل موجود ہیں دہشت گردی کے محرکات مذہب نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی محرکات ہیں جس میں امریکہ سمیت دیگر طاقتیں شامل ہیں انہی کی پالیسیوں کی وجہ سے القاعدہ اور داعش بنی اور اس حوالے سے یہ کہنا کہ یہ مذہب کا مسئلہ ہے اور اسلام میں دہشت گردی ہے تو تاثر غلط ہے۔ مشرق وسطی میں تبدیلیوں کی وجہ امریکہ کی پالیساں ہیں اگر امریکہ کی نئی قیادت سمجھے تو بہتری آسکتی ہے۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری