قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں


قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

حالیہ حکومت کے دور میں ملکی قرضوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا، جس کے بعد اس وقت پاکستان کا مجموعی قرضہ 18 کھرب 28 ارب سے زائد ہو چکا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان قرض کے بوجھ تلے اس قدر دب چکا ہے کہ اگر ایک ایک روپے کا سکہ ایک کے اوپر ایک رکھا جائے تو کے- ٹو پاکستان سے بلند پہاڑ معرض وجود میں آ جائے گا۔

جس ملک کی گردن میں 28 کھرب سے زائد قرضے کا بھاری طوق ہو، کیا وہ کسی کے سامنے سر اٹھا کر بات کر ساکتا ہے؟؟

اس پر بحث نہیں کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں کتنا قرض لیا اور مسلم لیگ نے اپنے دور حکومت میں کتنا؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان پر یہ قرضہ واجب الادا ہے اور پاکستان کا وہ بچہ تک مقروض ہے جو ابھی اس دنیا میں نہیں آیا۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اقتصادی ترقی کی رفتار تیز کرنے، ضروری ملکی وسائل کو بڑھانے اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کی تیاری کے لئے میں جب قرضہ لیا جاتا ہے تو، یہ سب ہو جانے کے بعد قرض کی مد میں لی جانے والی رقم واپس کیوں نہیں کی جاتی؟

اور اگر کی جاتی ہے تو قرض دن بدن بڑھ کر پاکستان کی نظریں نیچے کرنے کا باعث کیوں بن رہا ہے؟

اردو زبان میں ایک کہاوت ہے، جس کا کھانا، اس کا گانا ۔۔۔ اس مقولے کے مصداق اگر پاکستان کسی بھی وجہ سے کسی ملک سے قرض یا امداد (جو قرض سے بھی بدتر ہے) کی مد میں، رقم لے کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر پاتا تو حیرت کیسی؟

بعض حضرات پاکستان کے قرض لینے پر یہ موقف اپناتے ہیں کہ قرض صرف پاکستان ہی نہیں لیتا، دنیا کا ہر ملک لیتا ہے بلکہ بڑی بڑی عالمی قوتیں بھی قرض پر چلتی ہیں۔ گویا اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ دیگر ممالک جب قرضہ لیتا ہے تو وہ ان کی ترقی میں جھلکتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جس تیزی سے واجب الادا قرض کی رقم بڑھ رہی ہے اس تناسب سے ملک کی حالت نہیں سدھر رہی۔

حتیٰ کہ قرض کی رقم اتارنے کے لئے مزید قرض لے لیا جاتا ہے۔

آج سبز ہلالی پرچم کو ایک ایسے رہنما کا انتظار ہے جو خود کو فقط 5 سال کا حکمران نہیں بلکہ ساری زندگی کا  شہری سمجھ کر آئے، جو یہ سمجھے کہ اس گھر میں صرف اسی نے نہیں، اس کی آنے والی نسلوں نے بھی زندگی گزارنی ہے۔ جو پاکستان کا قرض کم اور ترقی کی شرح میں اضافہ کرے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری