کیا "رد الفساد" نامی آپریشن کے بعد پاکستان میں امن بحال ہوجائے گا؟


کیا "رد الفساد" نامی آپریشن کے بعد پاکستان میں امن بحال ہوجائے گا؟

لعل شہباز قلندر کے مزار میں دھماکے کے بعد اچانک کچھ کاروائیاں شروع ہوئیں جنہیں بعد میں "ردّ الفساد" کا نام دیا گیا؛ کافی لوگ جذباتی ہوئے جیسا کہ جنرل مشرف کے آپریشن "راہ راست"، جنرل اشفاق کیانی کے آپریشن "راہ نجات"، اور جنرل راحیل شریف کے آپریشن "ضرب عضب" کے بعد بھی عوام کی صورت حال یہی تھی۔

خبر رساں ادارے تسنیم کو ارسال کردہ پاکستانی کالم نگار فرحت حسین مہدوی کے مقالے کا متن من و عن پیش خدمت ہے۔

لعل شہباز قلندر کے مزار میں دھماکے کے بعد اچانک کچھ کاروائیاں شروع ہوئیں جنہیں بعد میں "ردّ الفساد" کا نام دیا گیا؛ کافی لوگ جذباتی ہوئے جیسا کہ جنرل مشرف کے آپریشن "راہ راست"، جنرل اشفاق کیانی کے آپریشن "راہ نجات"، اور جنرل راحیل شریف کے آپریشن "ضرب عضب" کے بعد بھی عوام کی صورت حال یہی تھی۔

ہر آپریشن کے آغاز پر لوگ یہی سمجھے کہ گویا کئی عشروں سے جاری فتنے سے اب بس نجات ملے گی مگر آپریشن ختم ہوئے، جرنیل صاحبان تبدیل ہوئے مگر نہ صرف دہشت گردی ختم نہیں ہوئی بلکہ نت نئے گروپوں نے جنم لیا، نت نئے نعرے سامنے آئے، نت نئی کاروائیاں شروع ہوئیں۔ ہر آپریشن کے بعد دہشت گردی کو مزید وسعت اور قوت ملی حتی کہ امکان ظاہر کیا جانے لگا کہ گویا یہ آپریشن دہشت گردانہ فتنے کی نئے نسخوں کے ظہور پذیر ہونے کے لئے شروع ہوئے تھے!

پھر رد الفساد نامی آپریشن گویا عجلت میں شروع ہوا جس کا جنرل باجوہ نے پہلے سے اعلان نہیں کیا تھا اور اگر ہم تصور کریں کہ اس آپریشن کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی موجود تھی تو اس صورت میں بھی یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ گویا جنرل صاحب کو شہباز قلندر کے مزار ـ یا کسی اور اہم مقام ـ پر دھماکہ ہونے کا انتظار تھا۔

ضرب عضب کے بعد رد الفساد آپریشن کا نام بھی عربی ہے جب کہ راہ راست اور راہ نجات کے نام پاکستانی تھے۔ جس سے بعض مجھ جیسے سطحی سوچ رکھنے والے لوگ یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ گویا ان آپریشنز کے نام سعودیوں اور عربوں کے مشورے سے رکھ لئے گئے ہیں! جو باعث حیرت ہے کیونکہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں آل سعود کے ہاتھ بڑے واضح دکھائی دے رہے ہیں اور تمام دہشت گرد ٹولوں کی مالی امداد ریاض اور تل ابیب سے موصول ہونے کی اطلاعات بھی ذرائع ابلاغ اور اعلی پولیس افسروں کے زبانی مسلسل نشر ہوتی رہی ہیں تو جو دہشت گردی کو تقویت پہنچانے کا عالمی ایجنڈا رکھتے ہیں وہ کیونکر اس کے سد باب میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ جتنے بھی آپریشن ہوئے ہیں ان میں بعض ٹولوں کے کچھ عام افراد تو نشانہ بنے ہیں جبکہ ٹولوں کے سرغنے اور ان کا اصل وجود برقرار رہا ہے۔ یہاں تک کہ جنرل راحیل شریف کے ضرب عضب نامی آپریشن کے بعد پورے پاکستان میں داعش کی تنظیم سازی کی خبریں گردش کرنے لگیں اور معلوم ہوا کہ جن علاقوں میں آپریشن ہوا تھا اور کوئی 700 دہشت گرد مارے گئے تھے وہاں ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردوں نے داعش میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔

داعش کی تنظیم سازی اتفاق سے ان ہی علاقوں سے شروع ہوئی جہاں بظاہر آپریشن ہوا تھا۔ ضرب عضب کا سب سے اہم نشانہ شمالی وزیرستان تھا اور اسی وقت بھی انصاف پسند تجزیہ نگار کہتے رہتے تھے کہ دہشت گردوں کو فوجی کاروائی کی پہلے سے اطلاع ہوتی ہے اور وہ کاروائی سے قبل محفوظ ٹھکانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ بھی کہا گیا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان نیز اورکزئی ایجنسی کے دہشت گرد نئے خفیہ ٹھکانوں میں منتقل ہورہے ہیں، شمالی وزیرستان سے تمام دہشت گرد کرم ایجنسی میں منتقل ہوئے ہیں اور ضرب عضب کے کامیاب اختتام (!) کے اعلان کے بعد جب داعش کی تنظیم سازی کی خبریں آنے لگیں تو معلوم ہوا کہ فوج کے ایک ڈویژن جتنی نفری [12000 افراد پر مشتمل] صرف کرم ایجنسی اور ضلع ہنگو سے داعش میں شامل ہوئی ہے جبکہ رد الفساد نامی عربی نام کے آپریشن کے بعد اب تک کچھ ہی افراد مختلف علاقوں میں مارے گئے ہیں یا گرفتار ہوئے ہیں اور کاروائی محدود نظر آرہی ہے جبکہ راولپنڈی سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں صرف ایک صوبے کے افراد کو شامل تفتیش کیا جارہا ہے اور جتایا جارہا ہے کہ پنجاب میں کوئی مقامی دہشت گرد نہیں ہے جبکہ یہ صوبہ تقریبا تمام دہشت گرد تنظیموں کی جنم بومی ہے اور اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں ہے۔

اعلان ہوا کہ جماعۃ الاحرار کو سرحد پاr افغانستان میں نشانہ بنایا گیا ہے جس کے بعد جماعۃ الاحرار نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ اس کے جنگجو محفوظ ہیں اور وہ پاک فوج سے ضرور بدلہ لے گی جبکہ اس نے ذرائع ابلاغ کو بھی انتقامی کاروائیوں کی دھمکی دی ہے۔

ان کاروائیوں میں دہشت گردوں کے نقصانات سے قطع نظر جو بات ایک بار پھر اس آپریشن کو متنازعہ بنا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے تمام سرغنے محفوظ ہیں، ان کے دفاتر محفوظ ہیں، ان کے سرکاری اہلکاروں حتی کہ وفاقی حکومت کے اہم وزراء کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں گوکہ وہ ہر ملاقات کے بعد ملک میں کہیں نہ کہیں کاروائی بھی کرتے ہیں جس سے سرکار اور دہشت گردوں کے درمیان تعلق کے حوالے سے ہونے والے دعوے، وعدے اور نعرے و اعلانات مزید مشکوک ہورہے ہیں۔

ملک میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں بھی ذمہ دار بین الاقوامی حلقوں کے بیانات مسلسل آتے رہتے ہیں جن کا حکومت کی طرف سے کوئی اطمینان بخش جواب تا حال نہیں دیا جاسکا ہے۔

شام کے شہر حلب میں دہشت گردوں کی شکست کے بعد بڑی تعداد میں دہشت گردوں نے ترکی کا رخ کیا اور وہاں سے بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو سعودی عرب نے یمن منتقل کیا اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے ایک بڑی تعداد نے پاکستان آکر "خفیہ ٹھکانوں" میں پناہ لی ہے، جبکہ منصفانہ رائے یہ ہے کہ ایک ملک میں جرائم پیشہ افراد اور تنظیموں کے خفیہ ٹھکانے عوام سے تو مخفی ہوتے ہیں لیکن جن کو ان کا مقابلہ کرنا ہے، ان سے ان کا مخفی ہونا قابل قبول نہیں ہے لیکن پھر بھی انہیں خفیہ قرار دینے سے یہ احتمال قوت پکڑتا ہے کہ دہشت گردوں کے لئے سرکاری اداروں کے اندر نرم گوشے موجود ہیں۔

حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق مشیر صدر پاکستان فرحت اللہ بابر نے بھی کہا تھا کہ "لگتا ہے کہ حکومت بیرون ملک دہشت گردی کرنے والے وہابی دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے"۔ جبکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ بھی معترف ہیں کہ ریاست وہابی دہشت گردوں کو مکمل تحفظ فراہم کررہی ہے، اور وہ اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر داخلہ کے وہابی دہشت گردوں کے ساتھ قریبی تعلق کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

اس میں شک نہیں ہے کہ افغان جہاد کے بعد افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی مختلف جہادی گروپوں کو تربیت دی گئی جو افغان جنگ کے بعد پاکستان میں آبسے اور عرب افغانوں کے نام سے مشہور ہوئے جن میں البتہ چیچن اور ازبک باشندوں سمیت دنیا بھر سے آئے ہوئے نام نہاد مجاہدین شامل تھے جنہیں گویا قتل و غارت کی تربیت دی گئی تھی لہذا وہ چین کی زندگی بسر کرنے کے لئے اپنے ملکوں میں پلٹ کر جانے کے بجائے یہیں بسیرا کرگئے تھے اور بعد میں انہیں مختلف ممالک میں دیکھا گیا اور وہی لوگ گویا پھر بھی اپنے پرانے ٹھکانوں کی طرف پلٹ آئے ہیں اور شام اور یمن کی جنگ کے خاتمے کے بعد ان کا پاکستان لوٹ کر آنا بعید از قیاس نہیں ہے۔

ادھر حکومت پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی حد معمول کے تعلقات سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں، ضرب عضب کے کمانڈر جنرل راحیل شریف گویا سعودی اتحاد میں شامل ہوچکے ہیں اور رد الفساد کے کمانڈر نے بھی سعودی عرب کی سلامتی کو پاکستانی افواج کی ترجیح قرار دیا ہے۔

مذکورہ واقعات کے درست یا نادرست ہونے سے قطع نظر، جو بات اہم اور حقیقت پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ سعودی عرب پوری دنیا میں دہشت گردی کی سرپرستی کا ملزم ہے، یہاں تک کہ مغربی ممالک میں بھی اس بات کا اعلانیہ اظہار کیا جارہا ہے، امریکی کانگریس 9/11 کی ذمہ داری سعودی حکومت پر ڈالتی ہے اور سعودی عرب میں ناروے کا سابق سفیر کہتا ہے کہ سعودی عرب کی خوفزدہ بادشاہت، پوری دنیا میں وہابیت پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کارل شویٹز نے وہابیت کے متعصبانہ افکار اور سعودی پیٹرو ڈالرز کی مدد سے وہابیت کی ترویج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغرب نے اس خطرناک حقیقت سے  اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور یہ بات باعث تشویش ہے؛ جبکہ ہم ضیاء آمریت کے دور سے پاکستان میں بھی چشم سر سے دیکھ رہے ہیں اور محسوس کررہے ہیں کہ سعودی پیٹرو ڈالر تمام پاکستانی باشندوں کے لئے بلائے جان بنے ہوئے ہیں، چنانچہ ہمارے خیال میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہونے والی کاروائیوں کے کمانڈروں کے آل سعود سے نہایت گہرے تعلقات اور پاکستان کے تمام شعبوں میں آل سعود کا اثر و رسوخ سمجھ سے بالاتر ہے۔

یہ عقل کا تقاضا بھی ہے اور کسی ملک میں بدامنی کا سبب بننے والے اقدامات کے خاتمے کے یقینی بنانے کے لئے ضروری بھی کہ سب سے پہلے ان اقدامات کے اسباب فراہم کرنے والی تنظیموں کے سربراہوں کو گرفتار کرکے فوری طور پر عدالتوں کے سپرد کیا جائے، ان کے بینک حسابات اور دفاتر کو بند کیا جائے، ان کو ملنے والی بیرونی امداد کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور ہر قسم کی ایسی امداد جو کسی بھی بہانے بیرون ممالک سے آتی ہے اور ملک کے اندر دہشت گردی میں استعمال ہوتی ہے، کا سد باب کرنے کی غرض سے متعلقہ ممالک سے دو ٹوک انداز میں بات چیت کی جائے اور کسی بھی ذاتی یا جماعتی مفاد یا حتی کہ اعتقادی وابستگی نیز کسی بھی قسم کی مدد و حمایت کے امکان ـ جو بظاہر ملک کے مفاد میں ہو ـ کو نظر میں لائے بغیر ملک و قوم کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں معذرت خواہانہ لب و لہجہ ترک کرکے انہیں دو ٹوک انداز میں موجودہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر آمادہ کیا جائے اور رد الفساد کے حوالے سے بھی اس طرح کا مطالبہ پاکستانی قوم کا حق ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو جنرل باجوہ کو پاکستانی تاریخ دہشت گردی کے اٹل خاتمے کا ہیرو قرار دے گی، بصورت دیگر رد الفساد دہشت گردی کے خلاف ہونے والا چوتھا بڑا آپریشن تو ہوگا لیکن آخری آپریشن ہرگز نہیں، اور دہشت گردی سے چھٹکارا پانے کا پاکستانی عوام کا خواب پھر بھی ادھورا رہے گا۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری