بابا جان، آپ کے جانے کے بعد مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر روشن دِنوں پر پڑتیں تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے


بابا جان، آپ کے جانے کے بعد مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر روشن دِنوں پر پڑتیں تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کی عظیم شخصیت کے بارے میں دنیا کے بہت سے دانشوروں نے اظہار خیال کیا ہے اور آپ کو ایک مسلمان عورت کا جامع اور مکمل نمونہ قراردیا ہے اور خود رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سیدۃ نساء العالمین قرار دیا ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق، آج دنیا بھر کے مومنین و مومنات اور مسلمین و مسلمات بنت رسول بی بی سیدہ سلام اللہ علیہ کا یوم شہادت بے پناہ ادب و احترام سے منا رہے ہیں۔

آپ کی زندگی بہت مختصر لیکن عظیم اخلاقی اور معنوی درس کی حامل تھی ۔ یہ عظیم خاتون اسلام کے ابتدائی دور مختلف مراحل میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اورحضرت علی علیہ السلام کے ساتھ رہیں۔آپ نے حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام جیسے صالح فرزندوں کی تربیت کی کہ جو رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  کے فرمان عالیشان کے مطابق جوانان جنت کے سردار ہیں ۔

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہ کی پیدائش بعثت کے پانچویں سال میں 20 جمادی الثانی کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجة الکبریٰ سلام اللہ علیہ ہیں ۔

ام المومنین جناب خدیجہ سلام اللہ علیہ وہ عظیم خاتون ہیں جو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور پوری زندگی آپ کا دفاع کرتی رہیں۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی پارہ جگر کا نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العالمین، راضیہ، مرضیہ، شافعہ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔

آپ کی مشہور کنیت ام الآئمہ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ہے، یعنی اپنے باپ کی ماں؛ پس یہ لقب اس بات کا ترجمان ہے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاہتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحانوی اور معنوی پناہ گاہ تھیں۔

جس معاشرے میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دینا ایک عام رواج تھا، رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اپنی شہزادی کی تعظیم کے لئے خود کھڑے ہو جاتے تھے۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے خواتین کے لیے پردے کی اہمیت کو اس وقت بھی ظاہر کیا جب اپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں.

روایت کے مطابق، آپ ایک دن غیر معمولی طور فکر مند نظر ائیں . اپ کی چچی (جعفر طیار رضی اللہ تعالی کی بیوہ) اسماء بنتِ عمیس نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کا قد و قامت نظر آتا ہے۔

اسما رضی اللہ تعالی نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو. اسکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بنا کر دکھائی اس پر سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہ بہت خوش ہوئیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد صرف یہی ایک ایسا موقع تھا کہ جب آپ کے لبوں پر مسکان آئی تھی۔

چنانچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کے جنازے کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے.

مورخین تصریح کرتے ہیں کہ سب سے پہلی لاش جو تابوت میں اٹھی ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی تھی۔

اسکے علاوہ آپ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ آپ کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا جائے.

سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں۔

ان میں سے اکثر علماء اسلام میں متفقہ حیثیت رکھتی ہیں . مثلاً "اپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں .ْ
آپ ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں . آپ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ., " آپ کی رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور اپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے " جس نے آپ کو ایذادی اس نے رسول کو ایذا دی., اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو معتبر کتابوں میں درج ہیں۔

تاہم صد افسوس کہ وہ جگر پارہ رسول سلام اللہ علیہ جن کی تعظیم کو نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوجاتے تھے، بعدِ رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم اہل زمانہ کا رخ ان کی طرف سے پھر گیا۔

ان پر طرح طرح کے ظلم ہونے لگے اور انتہا یہ کہ شہزادی کونین سلام اللہ علیہ کے گھر پر لکڑیاں جمع کر کے آگ لگا دی گئی.

اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں اور وہی آپ کی شہادت کا سبب بنا۔

ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ فاطمہ (س) کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ


صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا صبّت علی الایّام صرن لیالیا
(بابا جان آپ کے جانے کے بعد مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر روشن دِنوں پر پڑتیں تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے)

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے 3مہینہ بعد تین جمادی الثانی سن 11 ہجری قمری میں شہادت پائی.

آپ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا .حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا اور صرف بنی ہاشم اور سلمان فارسی رضی اللہ تعالی، مقداد رضی اللہ تعالی  و عمار رضی اللہ تعالی جیسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کردیا۔

جنت البقیع میں جو آپ کا روضہ تھا وہ بھی باقی نہیں رہا۔ اس مبارک روضہ کو 8 شوال سن 1344ھجری قمری میں آل سعود نے دوسرے مقابر اہلیبیت علیہ السّلام کے ساتھ شہید کرا دیا

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری