امریکہ کا شام کو غیر مستحکم کرنے کے لئے 25 سال پہلے کا منصوبہ / نئی امریکی ڈی کلاسیفائیڈ خفیہ رپورٹ کا انکشاف


امریکہ کا شام کو غیر مستحکم کرنے کے لئے 25 سال پہلے کا منصوبہ / نئی امریکی ڈی کلاسیفائیڈ خفیہ رپورٹ کا انکشاف

شام میں سات سال سے جاری خانہ جنگی کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ جنگ 2011ء میں شروع ہوئی لیکن گزشتہ چند سالوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شام کو اس بحران میں مبتلا کرنے اور اس جنگ میں دھکیلنے کا کام باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت 25 سال پہلے انجام پایا تھا۔

تسنیم خبر رساں ادارہ: شام میں سات سال سے جاری خانہ جنگی بارے زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ جنگ 2011ء میں شروع ہوئی تھی لیکن گزشتہ چند سالوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شام کو اس بحران میں مبتلا کرنے اور اس جنگ میں ڈبونے کا کام باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا گیا تھا۔ یہ انکشاف متبادل میڈیا ویب نیوز سائٹ منٹ پریس ڈاٹ کوم پہ آنے والی تازہ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

ویکی لیکس نے 2010ء میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سینکڑوں خفیہ سفارتی مراسلے شائع کئے تھے اور ان میں 2006ء کا ایک مراسلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ شام کو غیر مستحکم کرنا مڈل ایسٹ میں امریکہ کی پالیسی کا اہم حصّہ تھا۔ اس کا حتمی مقصد ایران میں حکومت کو گرانا تھا جو کہ شام کا انتہائی گہرا اور قریبی اتحادی ہے۔ مراسلے سے یہ انکشاف ہوا کہ اس وقت امریکی مقصد دستیاب ذرائع سے شامی حکومت کو غیر مستحکم کرنا تھا۔

اس کے علاوہ امریکہ کی متبادل میڈیا کی علمبردار ویب سائٹ ڈیموکریسی نو کو امریکی فوج کے سابق جرنیل وسلے کلارک کے دھماکہ خیز انٹرویو نے بھی شام کی حکومت تبدیل کرنے کے امریکی پلان کی موجودگی 2001ء سے پہلے ہونا ثابت کردی۔ اب امریکی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی تازہ ڈی کلاسیفائیڈ رپورٹ سامنے آئی ہے جو کہ شام میں حکومت کی تبدیلی بارے امریکی کوششوں کے آغاز کی تاریخ 1980ء کی دہائی کا آخر بتاتی ہے بلکہ اس رپورٹ کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ یہ کوششیں اس سے بھی کہیں پہلے سے کی جارہی تھیں۔

یہ خفیہ رپورٹ 1980ء میں سی آئی کے مشن سنٹر فار گلوبل ایشوز کے سیکشن سب ورژن اینڈ سٹے بیلٹی سنٹر نے تیار کی اور اس رپورٹ کا عنوان تھا“Syria :Scenarios of Dramatic Political Change.” (شام: ڈرامائی سیاسی تبدیلیوں کا مرکز)۔

جیسا کہ اس رپورٹ میں خود لکھا گیا ہے کہ اس کا مقصد ارادی طور پہ ایک اشتعال انگیز انداز سے ان متعدد ممکنہ منظر ناموں کا تجزیہ کرنا ہے جو صدر حافظ الاسد (والد بشار الاسد) کے اقتدار کا خاتمہ کرنے کی طرف جائیں یا اس سے شام میں دوسری ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوں۔

رپورٹ جن میں تقسیم کی گئی ان کے ناموں کی فہرست سے صاف پتا چلتا ہے کہ اس رپورٹ کو اس وقت کی امریکی صدر ریگن کی کابینہ کے ٹاپ کے عہدے داروں نے پڑھا تھا اور خاص طور پہ یہ قومی سلامتی کے ذمہ داروں میں ہی تقسیم کی گئی تھی جبکہ سب متعلقہ امریکی ایجنسیوں کو اسے نہیں بھیجا گیا تھا۔ اسے کچھ ایسے عہدے داروں میں بھی تقسیم کیا گیا تھا جو امریکہ ۔ شام تعلقات کے اہم ترین کھلاڑی تھے۔ ان میں شام میں اس وقت کے امریکی سفیر ولیم ایگلٹن بھی شامل تھے۔

سرکاری طور پر اس رپورٹ کے لکھے جانے کو قریب قریب 25 سال کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن اس میں بہت سے تجزیے ایسے ہیں جو حال ہی میں شام میں ہونے والے واقعات ذہن میں لے آتے ہیں، خاص طور پر 2011ء میں پھوٹ پڑنے والی جنگ۔ اس رپورٹ کا سب سے بنیادی نکتہ سنّی مسلمانوں میں سے کچھ عناصر کی حکمران علوی اقلیت کے ساتھ کش مکش کے تصادم میں بدلنے کا ذکر ہونے کے ساتھ ساتھ مڈل ایسٹ میں جہاں جہاں روسی اثر پایا جاتا ہے اس کو ختم کرنے کا ذکر ہے۔ یہ مماثلت بتاتی ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام میں حکومت کی تبدیلی کی کوششیں 30 سال پیچھے تک جاتی ہیں اور اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں ایسے سامراجی عناصر موجود ہیں جو اس پالیسی کے رہنماء عوامل بنتے ہیں۔

سی آئی اے نے سنّی آبادی کے شامی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز اور سنّی آبادی میں اثر و رسوخ رکھنے والے ایسے افراد اور گروپوں کے نام اس رپورٹ میں ذکر کئے جو بغاوت کرسکتے ہیں یا اقتدار پر قبضے کی کوششوں کا حصّہ بن سکتے ہیں۔

سی آئی اے رپورٹ یہ بھی لکھتی ہے کہ شام میں سیاسی اور فوجی اشرافیہ میں گروہ بندی کا طاعون پھیل گیا ہے اور علوی اقلیت جو کہ اقتدار پر سب سے زیادہ گرفت رکھتی ہے اس کے خلاف سنّی اکثریتی آبادی میں غم وغصّہ پایا جاتا ہے۔ اور اس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ علوی اور سنّیوں میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑنے کی وبا شامی فوج کے اندر بھی سنّیوں کو شامی حکومت کے خلاف کردے گی۔

اس خفیہ ڈی کلاسیفائیڈ رپورٹ میں بتایا گیا کہ شام کی سنّی آبادی سے ہی شامی فوج کے 60 فیصد افسروں کا تعلق ہے لیکن وہ سب جونیئر رینک کے افسر ہیں اور ان کو سنّیوں میں سے حکومت کے خلاف سازش تیار کرنے والوں کی صف میں دکھایا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ شامی حکومت سنّی منحرفین کی چھوٹی چھوٹی ہنگامہ آرائی پر بہت سخت ردعمل دے گی جس سے بے چینی کا دائرہ پھیل جائے گا اور خانہ جنگی کے لئے میدان تیار ہوجائے گا۔

سی آئی اے اپنی اس رپورٹ میں شام میں واضح طور پر سنّی (سلفی سعودی نواز) قیادت پر مشتمل حکومت کو بہت زور دیکر ترجیح قرار دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ایک سنّی (سلفی وہابی) حکومت امریکی مفادات کا بہترین خیال رکھ سکتی ہے۔ ایسی حکومت جسے (سعودی نواز سلفی وہابی) ماڈریٹ سنّی بزنس مین چلا رہے ہوں گے جو مغربی امداد اور سرمایہ کاری کو اشد ضرورت کے طور پہ دیکھتے ہیں۔

لبرٹیریرین انسٹی ٹیوٹ نے نشاندہی کی ہے کہ رپورٹ میں بیان گئے گئے یہ اندازے حال ہی میں شام میں ہونے والے واقعات کے عین مطابق ہیں اور ان کو مین سٹریم میڈیا کے کئی سیکشن غلط طور پہ خانہ جنگی/ سول وار کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپوزیشن فورسز جو کہ بشار الاسد کی حکومت گرانے کے لئے سات سال سے لڑرہے ہیں سب کے سب سلفی وہابی (کچھ دیوبندی عسکریت پسند بھی ان کے ساتھ شامل ہیں) گروپ ہیں۔

کامبیٹنگ ٹیررازم سنٹر ایٹ ویسٹ پوائنٹ کے مطابق شامی حزب اختلاف خاص طور پر اس کا مسلح دھڑا سارے کا سارا سلفی وہابی ہے، اور یہ سلفی دھڑے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کو چلارہے ہیں۔ 2014ء میں برطانوی اخبار گارڈین نے نوٹ کیا کہ شامی حزب اختلاف کی افواج ساری کی ساری سنّی (سلفی وہابی ) ہیں۔

تازہ شائع ہونے والی امریکی خفیہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خود علوی فرقے کے اندر گروہ بندی ملک میں عدم استحکام کا سبب بنے گی۔ یہ کہتی ہے کہ علوی غلبے کی حامل شامی فوج اسد کا تختہ الٹانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے جو کہ جب سے حافظ الاسد برسراقتدار آیا تب سے مارشل لاء لگانے کی مضبوط روایت کی حامل ہے۔ سی آئی اے کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر حافظ اسد نے جولان کی پہاڑوں پر اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے کے لئے جنگ کی کوشش کی اور اس میں اسد کو شکست ہوئی تو شامی فوج اسد کا تختہ الٹ سکتی ہے۔

شام اور اسرائیل کے درمیان 1967ء سے تنازعہ موجود ہے جب اسرائیل نے چھے روزہ عرب-اسرائیل جنگ میں جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ سی آئی اے علوی اشرافیہ کے اپنے اندر موجود لڑائی میں حافظ اسد کے بھائی رفعت کے کردار کو فوکس کرتی ہے جو کہ شامی سیاست کا متنازعہ کردار تھا۔

ویکی لیکس کے افشاء ہوئے 2006ء کے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سفارتی مراسلے میں علوی حکمران طبقے کے اندر پائے جانے والے تنازعوں کا بطور خاص ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ ایسے کئی کمزور اور انتہائی زبردست مواقع رکھنے والے رخنے موجود ہیں جن کو بشار الاسد اور اس کے اندرونی سرکل پر دباؤ بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسے اس مراسلے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

ایسے ہی 1986ء کی اس وقت تیار کی گئی خفیہ رپورٹ میں علوی اشرافیہ کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کا ذکر کیا گیا تھا جن کا ذکر 2006ء کے امریکی مراسلے میں پھر سے ملا۔ اور اس میں بشار الاسد کے چچا رفعت ایک بار پھر موضوع نظر آئے۔ لیکن سی آئی اے کی یہ علویوں کے بارے میں خواہشات پوری نہ ہوئیں اور علوی متحد رہے اور بشار الاسد کے ساتھ ہی کھڑے رہے جیسے سنّیوں میں صوفی سنّی شامی مسلمانوں کی بھاری تعداد بشار الاسد کی سپورٹ کرتی رہی۔ اور اس کی ایک وجہ علوی حکمران اشرافیہ کی سب سے بڑی حریف جماعت اخوان المسلمون کےحمایت یافتہ فوجی ٹولے کا بشار کے خلاف بغاوت کرنا تھا۔

سی آئی اے کی حال ہی میں شائع ہونے والی ڈی کلاسیفائیڈ رپورٹ کا زیادہ فوکس شام میں فرقہ وارانہ تشدد میں موجود پوٹینشل بارے بحث کرنا ہے لیکن اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بشار الاسد کو کامیابی سے آکر کوئی عدم استحکام سے دوچار کرسکتا ہے تو وہ اخوان المسلمون ہے۔ اخوان المسلمون 1928ء میں مصر میں بنی تھی اور یہ اب پورے مڈل ایسٹ میں موجود ہے اور اسے کئی ممالک میں اثر ورسوخ حاصل ہے۔

کئی ممالک بشمول سعودی عرب، روس، شام اور یو اے ای اسے دہشت گرد گروپ قرار دے چکے ہیں۔ اس کی دہشت گرد کاروائیوں کے باوجود سی آئی اے کے اخوان المسلمون سے تعلقات کی کہانی 1950ء سے شروع ہوتی اور حال تک آتی ہے۔ سی آئی اے کی 1986ء کی رپورٹ علوی اور ان سے اقتدار میں اتحادی بعث پارٹی کے خلاف اپوزیشن میں اخوان المسلون کو سب مضبوط گروپ قرار دیتی ہے۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ اخوان کا کردار دوسرے منظم گروپوں کے ساتھ ملکر اپوزیشن کو بڑھاوا دینا اور اسد کے خلاف تحریک کی تعمیر ہے اور اس رپورٹ ہی میں عراق میں جلاوطنی کاٹ کر واپس آنے والے اخوانی رہنماؤں کو شام میں ممکنہ سنّی تحریک کو قیادت فراہم کرنے والے بتایا گیا ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ 1986ء کی دستاویز میں مستقبل کے طویل منظرنامے میں اخوان المسلمون کے کردار کو اہم اور مرکزی بتایا گیا جبکہ 1980ء میں اخوان کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کو کچل دیا گیا تھا اور اس کے اکثر لیڈر عراق میں جلاوطن تھے یا زیر زمین تھے۔ تو اس بات میں کوئی حیرانی نہیں ہے کہ قریب قریب تین عشروں کے بعد شام کے تنازعے میں شامی اپوزیشن کی تخلیق اور اسے مسلح کرنے میں اخوان المسلمون کا مرکزی کردار رہا ہے۔

جب شامی حزب اختلاف نے 2011ء میں عسکریت پسندی کا راستہ اپنایا جب اسے سی آئی اے اور نیٹو کی اتحادی خفیہ ایجنسیوں سے اسلحہ ملنا شروع ہوگیا تو شامی قومی کونسل کا ظہور ہوا جسے مغرب کی حمایت یافتہ باغی فورس کا چہرہ قرار دیا گیا جو کہ بشار کا تختہ الٹانا چاہتی تھی۔ بدنام زمانہ امریکی کارینگی مڈل ایسٹ سنٹر نے اخوان المسلمون پر اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ اس کونسل میں سب سے بااثر اسلام پسند گروپ اخوان المسلمون ہے،2011ء سے 2015ء تک سی آئی اے نے سالانہ ایک ارب ڈالر شامی حزب اختلاف کی نام نہاد باغی فوج کو تربیت دینے اور اسلحہ فراہم کرنے پہ خرچ کئے۔ یہ پروگرام اب بھی جاری ہے اگرچہ امریکی کانگریس ویمن تلسی گیبرڈ جیسوں کی کمپئن کے بعد میں اس میں 2015ء میں 20 فیصد کمی کی گئی ہے۔

اسی طرح 2012ء میں حزب اختلاف کی سپریم ملٹری کمانڈ کا قیام عمل میں آیا۔ رائٹر نیوز ایجنسی کے مطابق اس وقت بھی اس میں اخوان کا غلبہ تھا۔ اس متحدہ کمانڈ میں اخوانی اور سلفی موجود تھے۔ لیکن اس میں شام کے کئی باغی فوجی افسران کو شامل نہ کیا گیا۔ اخوان المسلون کو سپریم کمانڈ کے اندر بڑا کردار دینے کا فیصلہ ایک اجلاس میں ہوا جس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، عرب بادشاہتوں، اردن اور ترکی کے نمائندے شامل تھے۔

پھر 2012ء میں اخوان المسلون کے ترجمان نے عرب، مسلم اور بین الاقوامی طاقتوں سے بشار الاسد کی حکومت گرانے کے لئے شام میں مداخلت کرنے کو کہا۔ کارینگی مڈل ایسٹ سنٹر کے مطابق جب سے نام نہاد انقلاب شروع ہوا اخوان نے شام کے بحران کا حل صرف اور صرف بیرونی مداخلت ہی قرار دیا۔ اور ان کے مطابق اخوان سی آئی اے کی طرح بشار حکومت گرانے کے لئے بیرونی مداخلت کی تلاش کررہی تھی۔ حادثاتی طور پہ 2012ء میں اخوان اور سی آئی اے کے درمیان براہ راست تعاون سامنے آگیا۔ نیویارک ٹائمز امریکی اخبار نے رپورٹ دی: " جنوبی ترکی میں سرگرم سی آئی کے افسران اتحادیوں کی مدد کررہے ہیں کہ کن شامی اپوزیشن جنگجوؤں کو سرحد پار ہتھیار فراہم کئے جائیں۔۔۔ اور یہ کام شام کی اخوان المسلمون سمیت کئی ایک واسطہ بنے خفیہ نیٹ ورک کے ذریعے سے کیا جائے گا"۔

ظاہر ہے کہ اس نے اخوان کو یہ موقعہ دیا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کس باغی گرپ کو اسلحہ دیا جائے اور اس نے ایسے اسلام پسند گروپوں کو اسلحہ دیا جو فکری اور نظریاتی طور پہ اس کے قریب تھے اور ظاہر ہے اس کی قربت سلفی گروپوں سے ہی زیادہ تھی۔

اس حقیقت کے باوجود کہ شامی اپوزیشن اس وقت زیادہ تر سنّی بنیاد پرستوں پر مشتمل ہے اور اخوان کا اس میں کردار بھی اہم ہے لیکن 1986ء میں سی آئی آے بشار الاسد کے خلاف سنّیوں کو بس تعداد اور جس شدت سے کھڑا دیکھنے کی خواہش مند تھی ویسا نہ ہوسکا۔ مثال کے طور پہ شام کی سنّی اکثریت اب بھی اسد کی حمایت کررہی ہے اور خاص طور پر سنّی مڈل کلاس، اپر سنّی کلاس اور سنّی بزنس اور مرچنٹ کلاس بھی بشار الاسد کی حمایت کررہی ہے۔ اور سنّیوں کی اکثریت امریکی س آئی اے کی توقعات کے برعکس باغی نام نہاد اسلام پسند باغی فوج سے زیادہ ڈر محسوس کرتی ہے۔

سی آئی اے اور امریکی حکومت نے شام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا سلسلہ 80ء کی دہائی سے شروع کیا اور اس کی شدت سات سال پہلے آئی اور اس کی وجہ سے 7 سال میں اسد حکومت کو گرانے کی کوششوں کی وجہ سے 5 لاکھ کے قریب شامی ہلاک ہوچکے ہیں اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ابتک کا دنیا کا سب سے بڑا ہجرت کا بحران دیکھنے کو ملا ہے۔

ڈی کلاسی فائیڈ رپورٹ مکمل پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں :

http://www.mintpressnews.com/declassified-cia-report-exposes-25-years-u-s-plans-destabilize-syria/225553/

نوٹ: زیر نظر مضمون مصنف نے اپنے نقطہ نظر سے لکھا ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے، تو قلم اٹھائیں اور اپنے ہی الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: tasnimnewsurdu@gmail.com آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری