شام کی 6 سالہ جنگ؛ کون اسلام نواز ہے اور کون اسلام مخالف!!!


شام کی 6 سالہ جنگ؛ کون اسلام نواز ہے اور کون اسلام مخالف!!!

شام میں مستقبل میں حکومت کسی کی بھی ہو اور صدر کوئی بھی ہو لیکن شامی عوام نے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوادیئے ہیں اور ان کی ہر ایک کوشش کو مٹی میں ملادیا ہے۔ دراصل شامی جنگ کے ان چھ برسوں کے مشکل دور میں یہ بات پوری طرح سے آشکار ہوگئی کہ کون اسلام نواز ہے اور کون اسلام مخالف!!!

خبر رساں ادارہ تسنیم:

امریکہ، مغرب، ترکی اور بعض عرب ریاستوں کی مداخلت کی وجہ سے 15اپریل 2011 کو مملکت شام میں انقلاب کے نام پر شروع ہوئی دہشت گردانہ کارروائیوں کو پورے 6 سال بیت گئے ہیں لیکن مختلف رنگ و نسل اور بربریت میں اپنی مثال آپ رکھنے والے یہ دہشت گرد اور ان کے حامی سوائے شام کی تباہی کے کسی بھی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکے اور انہیں ہر سطح پر مزاحمتی قوتوں سے منہ کی کھانا پڑی۔

مارچ 2011 تک شام عرب دنیا کا ایک پرامن ملک تھا جہاں کے ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ آزادی سے اپنے امور زندگی انجام دے رہے تھے تاہم آس پاس کے ملکوں میں پھیلی بدامنی اور افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کی دشمن قوتوں نے اس ملک میں بھی بے چینی پھیلانے کیلئے کوششیں شروع کیں اورنظام کی تبدیلی کے مقصد کو لیکر بہت ہی کم عرصہ میں انہیں اس میں اس لئے کامیابی ملی کہ انہوں نے اس کام کیلئے جہاں فرقہ واریت کاسہارا لیا وہیں شام کے لوگوں کو انقلاب کے خواب بھی دکھائے۔

2011 میں ہی یہ نام نہاد انقلابی تحریک مسلح بغاوت میں بدل گئی اور پوری دنیا پر بھی یہ بات آشکار ہوگئی کہ شام کا مسئلہ دراصل اندرونی نوعیت کا نہیں بلکہ بیرونی مداخلت کا نتیجہ ہے اور دہشت گردوں کا استعمال صرف اس لئے کیا گیا ہے تاکہ مزاحمت کی کمر توڑی جائے اور اپنے فیصلوں میں ایک آزاد اور خود مختار خیال کے حامل ملک شام کو بعض دیگر عرب ریاستوں کی طرح امریکہ اور مغرب کی کٹھ پتلی بنا دیا جائے۔

چونکہ شام نے کبھی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی اور اسرائیل مخالف موقف اپناتے ہوئے ہمیشہ فیصلے اپنے لوگوں کا فائدہ دیکھ کر کئے، اس لئے بشار الاسد کی زیر قیادت شام کی حکومت ان کے راستے کا کانٹا بن گئی جس کو ہٹانے کیلئے انہوں نے دنیا بھر سے دہشت گردوں کو شام میں جمع کرکے انہیں مہلک ہتھیاروں سے لیس کیا اور یہی وجہ رہی کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سب سے زیادہ ہجرت ہوئی اور تین لاکھ سے زائد افراد کی جانیں تلف ہوئیں۔

 شامی حکومت کیلئے 2012 اور2013 کے سال انتہائی مشکل تھے جس دوران نہ صرف بڑی تعداد میں شہری ہلاکتیں ہوئیں بلکہ فوج کا قبضہ بھی آہستہ آہستہ سکڑنے لگا اور داعش، القاعدہ (موجودہ النصرہ فرنٹ)، احرار الشام اور نہ جانے کیسی کیسی درندہ صفت دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آئیں جنہوں نے اپنے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں نام نہاد خلافتیں قائم کرکے لوگوں کا بے دردی سے قتل کیا اور پچھلے کچھ برسوں میں ایسی دل دہلادینے والے ویڈیوز اور مناظر دیکھے گئے جن کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔

ایک طرف جہاں یہ دہشت گرد ٹولے شام کی حکومت کے خلاف نبردآزما رہیں وہیں دوسری طرف انہوں نے قریب میں واقع ممالک اسرائیل، ترکی اور اردن کا بال تک نہیں اکھاڑا جس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوگئی کہ ان تکفیری عناصر کا مقصد شام کو تباہ کرناہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچایا اور الٹا اسرائیلی ہسپتالوں میں ان دہشت گردوں کا علاج ہوتا رہا جبکہ ترکی اور اردن کے راستوں کا استعمال کرکے یہ مملکت شام میں داخل ہوتے رہے۔

جب ان کی سرپرستی کرنے والے بھی بے نقاب ہونے لگے تو امریکہ نے چالیس سے زائد ممالک کا ایک نام نہاد اتحاد قائم کرکے داعش کے خلاف فضائی حملے شروع کئے لیکن یہ تکفیری تنظیم ان حملوں سے کمزور نہیں بلکہ مضبوط سے مضبوط تر ہوئی اور اس کا دائرہ شام اور عراق میں بڑھتا ہی چلاگیا۔ جہاں عراق میں مقامی نوجوانوں نے ان کے خلاف جہاد کرکے ان کا راستہ روکا تو وہیں شام میں لگ بھگ ڈیڑھ سال قبل روس کی قانونی مداخلت سے اس کو شدید نقصان سے دوچار کیا گیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادی شام کی حکومت کی اجازت کے بغیر مداخلت کررہے ہیں جبکہ روس نے قانونی طور پر اس جنگ میں حصہ لیا ہے۔

روس سے قبل شام کے عوام اور وہاں مقامات مقدسہ کو بچانے کیلئے ایران، مزاحمتی تنظیم حزب اللہ اور دیگر گروپوں نے مدد کی اور اس کے نتیجہ میں داعش، القاعدہ اور دیگر تکفیری جماعتوں کی یلغار کو نہ صرف روک دیا گیا بلکہ کئی علاقوں سے ان کو پیچھے بھی دھکیل دیا گیا۔ تاہم جب دہشت گرد لوگوں کا قتل عام کرتے تو حقوق انسانی کے علمبرداروں کی زبانیں بند ہوجاتیں اور مغرب نواز میڈیا بھی اپنی آنکھیں موندھ لیتا لیکن جب اتحادیوں کی مدد سے شامی فوج دہشت گردوں کا قافیہ حیات تنگ کرتی تو پوری دنیا میں واویلا مچ جاتا اور انسانی حقوق کے نام پر طرح طرح کا پروپیگنڈا کرکے سفارتی سطح پر شام کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی۔

اس کی واضح مثال پچھلے سال کے اواخر میں ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہر حلب کی دہشت گردوں کو شکست فاش دے کر آزادی ہے جب مغرب نواز میڈیا نے اپنے تمام تر وسائل کا استعمال کرتے ہوئے واویلا مچایا اور دنیا بھر میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ حلب شہر کا سقوط ہوگیا ہے۔ شام کے دشمن ممالک کی نظر میں اس ملک کے شہروں پر اقتدار کا جائز حق دنیا بھر سے آئے ہوئے دہشت گردوں کا ہے نہ کہ شام کی قانونی اور جمہوری حکومت کا۔

 شام کے معاملے میں پروپیگنڈا تو بہت کیا گیا لیکن مسلمان یہ تک بھی نہیں سمجھ پائے کہ وہاں کون کس کا اتحادی ہے۔ یہ بات عام فہم ہے کہ جس فریق کو اسرائیل اور امریکہ جیسی غاصب حکومتیں مدد کررہی ہوں، وہ اسلامی اقدار کے منافی ہی کام کرے گا کیونکہ ان صہیونی اور سامراجی طاقتوں کا مقصد ہی مسلمانوں اور اسلام کو نقصان سے دوچار کرنا ہے۔

دراصل شام میں دہشت گردوں کو جمع کرکے یہی مقصد حاصل کرنا مقصود تھا کہ اسلام کو کمزور کیا جائے اور اس جنگ کو شیعہ سنی کا نام دے کر دونوں فرقوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جائے لیکن شام کے لوگوں نے اس سازش کو سمجھتے ہوئے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا تو کل تک بشار الاسد کو ایک فرقے کا صدر کہہ کر اقتدار سے ہٹانے کی دھمکیاں دینے والوں کی زبانوں پر اس معاملے پر تالے لگ گئے اور انہیں یہ بھی بات سمجھ آچکی ہے کہ بشارکے بغیر شام کے مستقبل کا کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔

 شام کے موجودہ حالات اور جنگ میں شامی عوام کی مسلسل فتح کو دیکھتے ہوئے مغرب نواز تجزیہ کاروں نے اپنی رائے بدل ڈالی ہے اور وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ شام میں صورتحال حکومت کے حق میں جارہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جیت میں شامی عوام اور دیگر مزاحمتی قوتوں نے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں اور اگر وہ اپنا خون نہیں بہاتے تو آج شام داعش ،القاعدہ اور دوسرے تکفیری گروپوں کی عمل داری میں ہوتا جہاں لوگوں کے حقوق سلب کرلئے جاتے اور اسلام کے نام پر خلافت کی ایک ایسی عمارت تعمیر کی جاتی جس سے غیروں کو اسلام دشمن پروپیگنڈا کرنے کا موقعہ مل جاتا۔

شام میں مستقبل میں حکومت کسی کی بھی ہو اور صدر کوئی بھی ہو لیکن شامی عوام نے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوادیئے ہیں اور ان کی ہر ایک کوشش کو مٹی میں ملادیا ہے۔

دراصل شامی جنگ کے ان چھ برسوں کے مشکل دور میں یہ بات پوری طرح سے آشکار ہوگئی کہ کون اسلام نواز ہے اور کون اسلام مخالف!!!

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری