قومی اداروں کے فیصلوں پر تبصروں نے ملک میں بے چینی پھیلادی، علامہ ساجد نقوی


قومی اداروں کے فیصلوں پر تبصروں نے ملک میں بے چینی پھیلادی، علامہ ساجد نقوی

سربراہ اسلامی تحریک پاکستان کا کہنا ہے کہ ملکی سلامتی و یکجہتی کیلئے اور ذہنی انتشار سے بچنے کیلئے ذمہ داران غور و فکر کریں

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ قومی اداروں کے فیصلوں پر تبصروں ،تجزیوں اور مباحثوں نے ملک میں بے چینی پھیلا دی جس سے ملکی یکجہتی اور داخلی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، ذمہ داران اس اضطراب کو ختم کریں یا پھر نئے سوشل کنٹریکٹ بارے غور و فکر کریں، ملکی سلامتی و یکجہتی کیلئے اور ذہنی انتشار سے بچنے کیلئے ایک ایسا ادارہ ضروری جس پر تمام اکائیاں متفق ہوں، پارلیمان کی مشترکہ قراردادیں ہوں یا عدالت عظمیٰ کے فیصلے ، مختلف جانب سے تبصروں و تجزیو ں نے عوام کو مضطرب کردیا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت کیسزپرفیصلہ صادر ہونے سے پہلے اور بسا اوقات بعد میں بھی ان پر ذرائع ابلاغ میں ہونیوالے تبصروں، تجزیوں اورخبروں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔ 

انہوں نے کہاکہ ملک کی موجودہ صورتحال میں جب ہر طرف سے ہر ادارے کے فیصلوں پر تبصرے اور تجزیے کئے جارہے ہوں، اس کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنی توجیہات پیش کی جارہی ہوں تو اس صورتحال میں موجودہ آئین اور اس کے ساتھ قائم ادارے ناقابل اعتماد ٹھہرتے ہیں اور عوام کے اندر ذہنی انارکی جنم لیتی ہے،تو پھر ایسی صورتحال میں یا تو سب مل کر یہ عہد کریں کہ آئین کے تحت ادارے اپنے دائرے کار میں رہتے ہوئے جو فیصلے کریں انہیں قبول کریں گے اور اس پر سختی سے قائم رہیں گے اور تبصروں و تجزیوں سے اس میں شگاف نہیں ڈالیں گے۔ 
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات واضح تھی کہ جب معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جائے اور پھر فیصلہ آجائے تو وہ حتمی تصور ہوگا لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ جانبدار یا غیر جانبداریت کا تاثر دینے والے کبھی تجزیوں اور کبھی تبصروں کے ذریعے اور کبھی بیانات کے ذریعے اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں جس سے دباؤ کے عنصر کو تقویت ملتی ہے اور شائد آزادانہ فیصلے کرنے میں مشکلات حائل ہوتی ہیں ، یہی حال پارلیمان کی مشترکہ قراردادوں کا ہے۔
علامہ سید ساجد علی نقوی نے یہ بات زور دیتے ہوئے کہی کہ جب ملک ایسی صورتحال درپیش ہو کہ ایک جانب پارلیمان کی مشترکہ قراردادیں منظور ہوتی ہیں لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا بلکہ تبصرو ں اور تجزیوں کے ذریعے اس کو ہوا میں ہوا اڑادیا جاتاہے اور عوام کو مکمل کنفیوژ کردیا جاتاہے، اسی طرح عدالت عظمیٰ اگر کوئی فیصلہ صادر کرے تو اسے بھی مخالف بیانات، تبصروں اور تجزیوں کے ذریعے روند دیا جاتاہے جس کے باعث عوام کے ذہنوں میں سوالات کا طوفان امڈ آتاہے تو اسکا متبادل یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں ایک نئے سوشل کنٹریکٹ (عمرانی معاہدہ)کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس کے تحت تمام اکائیوں کو ایک مرتبہ پھر مجتمع کیا جائے اور چھان پٹھک کر ایسے اداروں کی تشکیل دی جائے جو اپنے دائرہ کار میں حرف آخر قرار پائیں تاکہ یہ کیل و کال ختم ہوسکے کیونکہ عوام کو ذہنی ، فکری انتشار سے بچانے کیلئے اور ملکی سلامتی و یکجہتی کیلئے یہ امر انتہائی ضروری ہے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری