دہشت گرد حملوں سے پاکستان میں تعلیم کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا: ہیومین رائٹس واچ


دہشت گرد حملوں سے پاکستان میں تعلیم کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا: ہیومین رائٹس واچ

ماہر تعلیم اے ایچ نیئر کا کہنا ہے کہ ایسے خدشات کا تدارک اسی صورت ممکن ہے جب دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق بین الاقوامی تنظیم ہیومین رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے حملوں کی وجہ سے پاکستان میں تعلیم کے شعبے پر برے اثرات پڑے ہیں۔

ہیومین رائٹس واچ ایچ آر ڈبلیو کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان اور دیگر دہشت گردوں نے پاکستان میں تعلیمی اداروں پر متعدد بار مہلک حملے کیے ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے حملے اس لیے ہوتے ہیں کیوں کہ یا تو عہدیدار دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں یا پھر انھیں باقاعدہ سزا دلوانے میں ناکام ہوتے ہیں۔

ہیومین رائٹس واچ کی طرف سے کہا گیا کہ اس طریقہ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ پاکستانی حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کوئی تفریق نہیں کی جا رہی ہے اور انھیں سزائیں دلوانے کے لیے سویلین حکومت نے فوجی عدالتیں تک بنائیں۔

ہیومین رائٹس واچ کی طرف سے حکومت سے کہا گیا کہ وہ اسکولوں کی عمارتوں کو محفوظ بنانے کے علاوہ تعلیمی اداروں، طالب علموں اور اساتذہ پر حملہ کرنے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔

ماہر تعلیم اے ایچ نیئر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایسے خدشات کا تدارک اسی صورت ممکن ہے جب دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے۔

میرے خیال میں شمالی علاقوں اور قبائلی علاقوں میں ابھی بھی (دہشت گردی) ایک بڑا چیلنج ہے۔۔۔ وہاں پر بھی تعلیمی اداروں کو دھمکیاں ملتی ہیں لیکن یہاں ہمارے دوسرے علاقوں کے اندر صورت حال یہ ہے کہ فی الحال تو وہ محفوظ ہے لیکن کچھ پتہ نہیں ہے یہ لوگ کسی بھی وقت کچھ کر سکتے ہیں جب تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا تمام دہشت گرد مارے نہیں جاتے یا تائب نہیں ہو جاتے اس وقت تک تو یہ خطرات باقی رہیں گے اور خاص طور پر تعلیم کو کیونکہ وہ (دہشت گرد) تعلیم کے مخالف ہیں اور وہ اس کو اپنے لیے غلط چیز سمجھتے ہیں تو خطرہ تو رہے گا۔

71 صفحات پر مبنی یہ رپورٹ صوبہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے طالب علموں، اساتذہ اور والدین سے کیے گئے انٹرویوز کی بنیاد پر تیار کی گئی۔

واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے مہلک کے حملے کے علاوہ جنوری 2016 میں صوبہ خیبر پختونخواہ ہی میں باچا خان یونیورسٹی پر بڑا حملہ کیا گیا تھا۔

پشاور اسکول پر حملے کے بعد ملک بھر میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی سکیورٹی بڑھا دی گئی تھی جب کہ تعلیمی اداروں کو بھی اس بارے میں اقدامات کرنے کی ہدایات کی گئی تھیں۔

خیال رہے کہ ہیومین رائٹس واچ کی یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی جب رواں ماہ ہی پاکستان میں تعلیم کے شعبے سے متعلق ایک سرکاری رپورٹ میں کہا گیا کہ اب بھی ملک میں دو کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچے ایسے ہیں جو تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔

سرکاری رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملک میں پرائمری سطح کے اسکولوں میں سے 21 فیصد اسکول ایسے ہیں جن میں صرف ایک استاد تعینات ہے جب کہ 14 فیصد اسکول محض ایک کمرے کی عمارت پر مشتمل ہیں۔

دوسری جانب حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ ناصرف ملک میں بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دی جا رہی ہے بلکہ اسکولوں میں دیگر سہولتوں کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے۔وفاقی محکمہ تعلیم کے مطابق گزشتہ تین سالوں کے دوران تعلیم کے مختص بجٹ میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے اور حکام کے مطابق یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری