پاکستانی میڈیا میں ایران مخالف لابی کی کاوشوں کا تسلسل/ پاکستان: افغانستان سفارتی مسائل کو میڈیا میں کیوں گھسیٹتا ہے؟


پاکستانی میڈیا میں ایران مخالف لابی کی کاوشوں کا تسلسل/ پاکستان: افغانستان سفارتی مسائل کو میڈیا میں کیوں گھسیٹتا ہے؟

ماہرین کا عزیر بلوچ کے مبینہ ایران مخالف انکشافات پر مبنی پاکستانی میڈیا کی خبروں پر تنقید اور اس کی تردید کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اس قسم کی خبریں پاک ایران کے برادرانہ تعلقات میں رخنہ ڈالنے کیلئے ایک خاص سازش کے تحت نشر کی جارہی ہیں۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر جان بلوچ سے متعلق تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے مبینہ طور پر ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے جاسوسی کرنے پر عزیر بلوچ کے خلاف فوجی عدالت میں جاسوسی کا مقدمہ چلانے کی سفارش کردی ہے۔

پاکستانی میڈیا کے مطابق سندھ پولیس، رینجرز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ 29 اپریل کو محکمہ داخلہ سندھ کو ارسال کردی گئی تھی۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ ملک میں آرمی کی تنصیبات اور عہدیداران سے متعلق خفیہ معلومات ایران کے انٹیلی جنس افسران کو فراہم کرتا تھا، جو کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ (سرکاری خفیہ ایکٹ) 1923 کی خلاف ورزی ہے۔

ماہرین کا عزیر بلوچ کے مبینہ ایران مخالف انکشافات پر مبنی پاکستانی میڈیا کی خبروں پر تنقید اور اس کی تردید کرتے ہوئےکہنا ہے کہ میڈیا میں اس قسم کی خبریں پاک ایران کے دیرینہ تعلقات کو خراب کرنے کیلئے ایک سوچھی سمجھی سازش ہے۔

ماہرین کا سوال ہے کہ غیر ثابت شدہ اور غیرسرکاری اطلاعات کو کیسے میڈیا کے اختیار میں قرار دیا جارہا ہے؟ ذرائع ابلاغ کو کیسے اجازت دی جاتی ہے کہ وہ بغیر ثابت شدہ موضوعات کو وسیع پیمانے پر نشر کر رہے ہیں؟ ایسے موضوعات جن کا سفارتی حل موجود ہے، میڈیا پر کھل کر کیوں سامنے آرہے ہیں جن کی وجہ سے نرم جنگ کے آغاز کرنے کے خدشات میں اضافے کا امکان ہے؟  

یاد دلایا جاتا ہے کہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے دور حکومت میں اسلام آباد نے افغان میڈیا پر نشر ہونے والی پاکستان کی سیکورٹی کے خلاف رپورٹس کے بارے میں احتجاج کرتے ہوئے اس قسم کے موضوعات کو میڈیا پر نہ لانے کی تاکید کی تھی اور کہا تھا کہ اس قسم کے موضوعات کو سفارتی سطح پر حل کرنا چاہئے۔

ہمیں دیکھنا ہوگا کہ غیر ثابت شدہ اور قابل تحقیق موضوعات کے بارے میں دونوں ممالک کی عوام کے احساسات کو بھڑکانے کا ذمہ دار کون ہے؟

ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے اندر ایران مخالف لابی وقت کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈے اور چھوٹی سی بات کو بڑھاوا دیکر پاک ایران کے دوستانہ اور تاریخی تعلقات کے جاری رہنے میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہے۔

ہمیں یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان کے بعض ذرائع ابلاغ نے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے چند ماہ بعد ایرانی صدر حسن روحانی کے پاکستان دورے کے دوران ایران مخالف تبلیغات کا آغاز کیا تھا اور اس دورے کو ایک تلخ ترین یاد کے طور پر دونوں ممالک کی تاریخ میں قلمبند کیا۔

ماہرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایران مخالف لابی دونوں ممالک کے درمیان میڈیا جنگ کے آغاز پر تلی ہوئی ہے اور کوشش کررہی ہے کہ ایرانی میڈیا کو بھی پاکستان مخالف موقف اختیار کرنے پر مجبور کرے تاکہ وہ بھی پاکستان کیخلاف موثق اور زیادہ سے زیادہ خبریں نشر کرے اور یہ امر پاکستان میں ایران کیخلاف وسیع پیمانے پر اقدامات کی منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتا ہے۔

واضح رہے ایرانی میڈیا پاک میڈیا سے کہیں زیادہ ایسے موضوعات نشر کرنے کے قابل ہے جو پاکستان کی سیکورٹی کیخلاف سمجھے جاتے ہیں تاہم ایرانی حکام اور میڈیا اس گھناؤنی سازش سے آگاہی کی وجہ سے اس ناپاک کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے اور پاکستان کے حوالے سے صبر و استقامت پر مبنی سیاست پر عمل پیرا ہوں گے اور برادرانہ تعلقات کو مزید استحکام بخشیں گے۔ 

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری