ماسکو کبھی امریکی اتحاد میں شامل نہیں ہوگا/ شام کی بگڑی صورتحال کا ذمہ دار مغرب ہے


ماسکو کبھی امریکی اتحاد میں شامل نہیں ہوگا/ شام کی بگڑی صورتحال کا ذمہ دار مغرب ہے

سیاسی ذرائع کے مطابق، روس امریکی قیادت والے اتحاد میں کبھی شامل نہیں ہوگا البتہ شام میں دہشت گردوں سے مقابلہ کیلئے کسی بھی قانونی اتحاد میں شرکت کرنے کو تیار ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق روسی روزنامہ ایزوسٹیا نے لکھا ہے کہ ماسکو کبھی بھی امریکی قیادت میں بنے اتحاد میں شمولیت اختیار نہیں کرے گا اگرچہ مغربی ممالک نے اس سلسلہ میں روس کو کئی بار پیشکش کی ہے جبکہ روس کی کنارہ کشی کا اہم سبب اس اتحاد کا غیر قانونی ہونا ہے۔

حالانکہ روسی عہدیداران اس بات کے معتقد ہیں کہ دہشت گردی سے مقابلے کیلئے مغرب اور روس کی شمولیت کے ساتھ ایک اتحاد کا ہونا ضروری ہے لیکن ایسے اتحاد کے قیام کیلئے اسکی بنیادی شرائط کا ہونا ضروری ہے۔

چند روز قبل ہی برٹش وزیر خارجہ بوریس جانسن نے روس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مناسب دوست کا انتخاب کرتے ہوئے شام میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مغرب کی حمایت کرے لیکن دہشت گردی سے مقابلے کیلئے عالمی اتحاد کی بات پر تاکید کرنے والے روسی عہدیداران دہشت گردی سے مقابلے کیلئے بنے مخصوص "مغربی حلقہ" میں شامل ہونے کیلئے راضی نہیں ہیں۔

روس امریکی قیادت میں بنے عالمی اتحاد کی سرگرمیوں کو غیر قانونی مانتا ہے

روسی روزنامہ کے مطابق امریکی اتحاد کی مشکل یہ ہے کہ اسکی تمام تر سرگرمیاں شامی حکومت  کی اجازت کے بغیر انجام پا رہی ہیں۔ اس اتحاد کو اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کی اجازت حاصل نہیں ہے۔

دوسری طرف شامی حکومت کی درخواست پر شام میں دہشت گردوں کے خلاف بر سر پیکار روس عالمی قوانین کو روندنے والے اس عالمی اتحاد میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتا۔

ایک روسی عہدیدار کے مطابق روس امریکی قیادت میں بنے دہشت گرد مخالف اتحاد میں کبھی شمولیت اختیار نہیں کرے گا اور یہ بات ہم بارہا اپنے مغربی ہم منصبوں کو بتا چکے ہیں۔ اور اس اتحاد میں روس کی عدم شمولیت کی دلیل یہ ہے کہ روس شام میں اس اتحاد کی سرگرمیوں کو غیر قانونی مانتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دراصل کئی بار ہمیں پیشکش ملی کہ ہم اس اتحاد میں شامل ہو جائیں یہاں تک کہ کچھ روز قبل سرگئی لاوروف اور امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے درمیان بھی اس معاملہ پر گفتگو ہوئی ہے لیکن امریکہ کی طرف سے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس اتحاد کی قیادت امریکہ کرے گا جو روس کو منظور نہیں ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے اس روسی عہدیدار کا کہنا ہے کہ جب یہ اتحاد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے شام میں اپنی سر گرمیوں کیلئے اجازت نامہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا تو اس سلسلہ میں ہمارے موقف میں تبدیلی کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے داعش کے خلاف جنگ میں مغرب سے اتحاد کی اپنی خواہش کو کبھی بھی پردہ راز میں نہیں رکھا۔ 

2014 میں اقوام متحدہ کے عام اجلاس میں پہلی بار روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ہی عالمی قوانین کی پابندیوں کے ساتھ عالمی اتحاد کی ضرورت پر تاکید کی تھی۔

روسی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے عالمی امور کے سربراہ کنسٹاٹن کاساچوف کا کہنا ہے کہ داعش سے مقبلہ کیلئے مغرب اور روسی اتحاد کا امکان موجود ہے اور روس اس کا خواہاں بھی ہے کیوںکہ دہشت گردوں کے مقابلہ کیلئے ضروری اقدامات کوعالمی کوششوں کے نتیجہ میں بہترین طریقہ سے عملی کیا جا سکتا ہے۔

شام کی زبوں حالی کا اصل سبب مغرب ہے

کاساچوف کا کہنا تھا کہ "لیکن اس اتحاد کے قیام کی اساسی شرط یہ ہے کہ یہ اتحاد دہشت گردوں سے مقابلہ کی آڑ میں اپنے دیگر پوشیدہ اہداف کی تکمیل میں مصروف نہ ہوبلکہاپنے اصل ہدف پر توجہ دے اور وہ شام سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہے۔ مغرب نے کبھی نہیں چھپایا ہے کہ ان کا پہلا ہدف دہشت گردوں سے مقابلہ ہے اور دوسرا بشار اسد حکومت کا خاتمہ، اور واضح ہے کہ روس ایسے کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا لیکن اگر مغرب اعلان کرے کہ وہ شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریگا اور بشار اسد کو ہٹانے کے درپے نہیں ہے اور بین الاقوامی قانون کی بالا دستی تسلیم کرتے ہوئے شام میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے تو ہم بنا کسی تردید کے ان کے ساتھ شریک ہونے کو تیار ہیں۔"

کاسا چوف نے مزید کہا کہ شام کے کچھ علاقوں پر دہشت گرد تنظیموں کے قبضے سے پہلے ہی مغرب بشار اسد حکومت کے خاتمہ کی فکر میں لگا ہوا تھا۔ اتفاق سے یہ مسئلہ خونی جھڑپوں میں بدل گیا اور مخالف مسلح عناصر نے اس کا فائدہ اٹھایا۔

اس روسی سینیٹر کے مطابق شام کی موجودہ صورت حال کا اصل ذمہ دار مغرب ہے۔

شام مشکلات کے حل و فصل کیلئے مختلف نظریات کے سبب دہشتگردوں سے مقابلہ کیلئے اتحاد کی گفتگو کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچی ہے لیکن روس اور مغربی اتحاد دونوں نے ہی اعلان کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اپنا مشن تیز کریں گے۔ لیکن امریکہ اور اس کے حامی بشار اسد حکومت کے خاتمے کو لیکر اپنی ضد سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ حالانکہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ روس سے نظریاتی اختلاف کے سبب شام میں اپنی سرگرمیوں کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری حاصل نہیں کر سکتا۔

دوسری طرف شام میں اپنی سرگرمیوں کیلئے روس کو قوام متحدہ سے کسی اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ شام کی منتخب حکومت کی درخواست کی بنا پر شام میں دہشت گردوں سے بر سر پیکار ہے۔

جب تک مغرب شام میں اپنی سرگرمیوں کو لگام نہیں لگاتا روس کو اس وقت تک تحمل سے کام لینا ہوگا۔ اگرچہ حالات اس بات کی حکایات کر رہے ہیں کہ مغرب اور اس کے اتحادیوں کا ابھی ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ شام کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنا بند کر دیں گے۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری