شام کی تقسیم کے اسرائیلی-امریکی منصوبے میں اردن کا کردار


شام کی تقسیم کے اسرائیلی-امریکی منصوبے میں اردن کا کردار

شام اور اردن کے درمیان میڈیا جنگ اس وقت شعلہ ور ہو گئی جب شام نے اردن پر الزام لگایا کہ وہ جنوبی شام میں اپنی فوجیں بھیجنے کی کوششوں میں مصروف ہے جسے اردن نے صراحت کے ساتھ جھٹلا دیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق رای الیوم کے ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے شام اور اردن کے درمیان جاری میڈیا جنگ کے بارے میں لکھا: "یہ جنگ اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب شام نے اردن پر الزام لگایا کہ وہ امریکی منصوبہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے شام میں اپنی فوجیں بھیجنے کی کوشش میں مصروف ہے جسے اردن نے جھٹلا دیا۔ 

1982 میں حماہ حادثے کے بعد سے، شام و اردن کے کشیدہ تعلقات میڈیا جنگ کی حد تک پہنچ گئے ہیں۔

یاد رہے کہ اردن نے شامی فوج کے ساتھ 20 – 30 ہزار لوگوں کی جان لینے والی جھڑپوں کے ذمہ دار اخوان المسلمین کے باغی لیڈروں کی میزبانی کی تھی۔

تازہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب بشار اسد نے اسپوٹنیک کو دئے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے پاس مصدقہ اطلاع موجود ہے کہ اردن امریکی سازش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے جنوبی شام میں اپنے فوجی بھیجنے کی سازش میں مصروف ہے۔

بشار اسد نے اپنی بات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اردن اتںا مضبوط اور مستقل ملک نہیں ہے کہ وہ شام میں مداخلت کرتے ہوئے امریکی مفادات کو عملی جامہ پہنائے۔

بشار اسد کے اس بیان پر اردن سرکار کے ترجمان محمد المومنی نے رد عمل کا اظہار کیا۔

اردن اور شام کے درمیان جاری میڈیا جنگ اور کشیدگی کے دو اہم اسباب ہیں۔

اردن حکومت نے امریکی حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے شامی حکومت کو خان شیخون پر کیمیائی حملہ کا ذمہ دار قرار دیا ہے جس بات کو بہانہ بنا کر امریکہ نے شام کے الشعیرات ائیربیس پر میزائل حملہ بھی کیا۔

جنوبی شام میں درعا، قنیطرہ، سویداء پر مشتمل ایک خود مختار ریاست کے قیام سے متعلق حوران نامی سازش کا پردہ فاش ہونا۔

شامی حکومت کا ماننا ہے کہ اردن اس ساش میں برابر کا شریک ہے یہ علاقہ اردن کی سرحد پر واقع ہیں اور اسرائیل اور امریکہ کے درمیان معاہدہ ہے جس کی رو سے حزب اللہ اور شامی فوجوں کو اس علاقہ میں واپسی سے روکنا ہے تاکہ یہاں سے گولان کی پہاڑیوں نیز فلسطین کی جدوجہد کیلئے غاصب صیہوںی رژیم کے خلاف محاذ آرائی کا موقع نہ مل سکے۔ 

شام میں فیڈرل نظام رائج کرنے کیلئے مقدمہ کے طور پر درعا کا ایک خود مختار ریاست کے طور پر قیام، اس سازش کا خطرناک پہلو ہے۔

یاد رہے کہ حلب اور تدمر کو دہشت گردوں کے وجود سے پاک کرنے کے بعد شامی افواج کی نگاہیں درعا پر مرکوز ہیں جس کا اکثر حصہ النصرۃ، تحریر الشام اور داعش جیسے مسلح دہشت گردوں کے قبضے میں ہے۔

قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اردن کی سرحدوں پر واقع یہ صوبہ شدید فوجی جھڑپوں کا مشاہدہ کریگا کیوںکہ صیہونی فوج نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ دنوں شام کی حدود میں کچھ علاقوں پر بمباری کی گئی ہے۔

اسی سلسلے میں شامی افواج نے اطلاع دی ہے کہ دہشتگردوں سے مقابلہ کیلئے آمادہ شامی افواج پر خان ارنبہ علاقہ میں ایک دہشت گرد تنظیم نے حملہ کیا ہے۔ 

ٹرمپ کے عہد و پیمان کے مطابق، درعا کو خود مختار ریاست بنانے کی امریکی سازش میں شرکت کی خاطر، شام میں اردن کی فوجی مداخلت کے الزام اگر ٹھیک ہوئے تو شام اور اردن کی میڈیا جنگ کئی ہفتے، بلکہ کئی مہینوں تک جاری رہے گی لیکن جس طرح اردن نے شام کے الزامات کی تردید کی ہے اگر حقیقت یہی ہے تو یہ کشیدگی ختم ہو جائے گی۔ انتظار کرنا ہوگا، جلدبازی میں کوئی فیصلہ لینا مناسب نہیں، اگرچہ جنوبی شام میں امریکہ اور اسرائیل کے شدید اقدامات کا احتمال ہے اور ایسی کسی بھی صورت میں اردن کے لئے فیصلہ کرنا بہت دشوار ہوگا۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری