تیل اب خلیجی ممالک کے عربوں کا مشکل کشا نہیں رہا


تیل اب خلیجی ممالک کے عربوں کا مشکل کشا نہیں رہا

صیہونی قومی سلامتی ریسرچ سینٹر نے عرب ممالک کے استحکام کے پیش نظر ایک رپورٹ تیار کی ہے جس کے مطابق مختلف دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے تیل اب عربوں کی تمام مشکلات کا راہ حل نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق خلیج فارس کے عرب ممالک کے استحکام کے حوالے سے تیار کی گئی صیہونی قومی سلامتی ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق، مختلف دلائل کے سبب جیسے تیل کے ختم ہوتے ذخائر نیز تیل کی جگہ لینے والی دوسری توانائیوں کے شعبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کے سبب آج تیل اپنی تاریخی حیثیت کو کھوتا جا رہا ہے نیز ان ممالک کی تمام مشکلات کو حل کرنے میں کلیدی کردار نہیں رکھتا۔

خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال بالخصوص امریکہ کی سرپرستی میں صیہونی اور خلیجی ممالک کے درمیان نیٹو جیسے نام نہاد اتحاد کہ جسے واشنگٹن اور تل ابیب "معتدل سنی عرب ممالک کے اتحاد" کے نام سے یاد کرتے ہیں، کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیلی ریسرچ سینٹر نیز اس رژیم کے اسٹیک ہولڈرز سعودی اتحاد کے دوام کے متعلق خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کی صورتحال کے استحکام کا جائزہ لے رہے ہیں۔  

اس سلسلے میں صیہونی قومی سلامتی ریسرچ سینٹر نے ان ممالک کے امن و سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دقیق رپورٹ پیش کی ہے۔

خلیجی ممالک میں عوام کے احتجاجات شروع ہونے کے بعد سے مذکورہ ممالک نے اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں تاکہ عوام کی خوشنودی حاصل کی جا سکے جن میں مختلف لوگوں کو تحفے تحائف نیز مالی امداد اور روزگار کی فراہمی بھی شامل ہے۔

اس طرز سلوک کی حکمت عملی یہ کہ عوام ایسی مہرباں حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے اور اگر کوئی ایسا ارادہ کرتا ہے تو اسے دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنا ہوگا نیز ناکوں چنے چبانے پڑیں گے۔   

اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ خلیجی ممالک کے تیل کی بے شمار اہمیت نیز دیگر ممالک کو اپنی طرف متوجہ کرنے جیسی دیگر خصوصیات کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تیل کے ذخائر ہی سب کچھ ہیں۔ دوسرے مسائل بھی ملکی بقا و امن وامان کیلئے اہمیت کے حامل ہیں تیل ملک و اقتدار کے دائمی استحکام و بقا کا ضامن نہیں ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معمر قذافی اردن اور الجزائر کے بادشاہ کی نسبت تیل کی دولت سے زیادہ مالامال تھا لیکن قذافی مارا گیا تاہم اردن اور الجزائر کے حکمران اپنی جگہ باقی ہیں مختصر یہ کہ تیل کے ذخائر مؤثر تو ہیں لیکن مضبوط مستقبل کی ضمانت نہیں۔

صیہوںی قومی سلامتی ریسرچ سینٹر کے مطابق اسرائیل خلیجی عرب ممالک کو بہت اہمیت دیتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہ ممالک ایران کے مقابل صف آراء ہو جائیں اور ایران کا خوف ہی اس بات کا باعث بنا ہے کہ اسرائیل ان ممالک سے اپنے روابط بڑھائے۔

مخفی روابط رکھنے والے دونوں فریقوں کی کوشش ہے کہ انہیں عوامی غم و غصہ کی صورت میں ان روابط کی کوئی قیمت نہ چکانی پڑے کیوںکہ ان ممالک کے حکمران اسرائیل سے آشکارا روابط کی صورت میں اپنی عوام کے غم و غصہ سے خوف کھائے ہوئے ہیں اور اسرائیل کو اس بات کا خوف ہے کہ ان روابط کے آشکار ہونے کی صورت میں خلیجی ممالک کو سیاسی امتیاز دینے کیلئے مجبور ہوگا۔

اس رپورٹ میں تاکید کی گئی ہے کہ فریقین کیلئے بہتر ہوگا کہ یہ تعلقات پوشیدہ ہی رہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ معدنی ذخائر میں روز بروز ہونے والی کمی جیسے خطرات کے دوران عوام پر مسلسل انعام و اکرام کی بارش کرنا ممکن نہیں ہوگا حکومتی امداد کے خاتمے کی صورت نیز کرپشن میں روز افزوں اضافہ اور بنا کسی تحقیق و جانچ پڑتال کے سرکاری خزانے کا بے دریغ استعمال کرنے کی صورت میں یہ ممالک بغاوت کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔

لہٰذا یہ کہنا غلط ہوگا کہ عرب ممالک میں انقلابی لہر نے ان ممالک کو استحکام بخشا ہے بلکہ جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی سے آراستہ ان ممالک کی نوجوان نسل اقتصاد اور سیاسی میدان میں اپنے بنیادی حقوق کے خواہاں ہیں اور ان کا حق ملنا ہی ان ممالک کے استحکام اور بقا کا ضامن ہوسکتا ہے۔

مختصر یہ کہ تیل اپنی تاریخی حیثیت کو کھونے کے بالکل قریب ہے کیونکہ تیل کے ذخائر روز بروز کم ہوتے جارہے ہیں اور دوسری طرف تیل کی جگہ نئی توانائیوں کو بروئےکار لانے کے لئے سرمایہ کاریاں کی جا رہی ہیں۔

خلیجی ممالک اگرچہ "بنا تیل کی دنیا" کیلئے اپنے آپ کو آمادہ کر رہے ہیں لیکن وہ خود تاحال تیل کے بنا اس دنیا کو قبول کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ہیں۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری