فوجی اور سیکورٹی چیلنجز میں گھری ہوئی غاصب صیہونی حکومت!


فوجی اور سیکورٹی چیلنجز میں گھری ہوئی غاصب صیہونی حکومت!

غاصب صیہونی کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں لبنان پر غاصبانہ تجاوز کی صورت میں حزب اللہ کی فوجی کارروائیوں کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ فلسطین میں بے گناہ فلسطینی قیدیوں کی بھوک ہڑتال ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی قیدیوں کی بھوک ہڑتال کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے کسی بھی گستاخانہ اقدام کی صورت میں لبنان کی مجاہد تنظیم حزب اللہ کے اعلان جنگ نے غاصب صیہونیوں میں خوف و دہشت کی لہر دوڑا دی ہے۔

غاصب صیہونی حکومت اندرون ملک نیز لبنان سے ملنے والے شمالی فلسطین اور مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں پر شدید سیکورٹی مشکلات سے دچار ہے کیونکہ اسرائیل ایک غاصب ملک ہے اور غاصب صیہونی حکومت کو یہ خطرات ہمیشہ ہی لاحق رہتے ہیں لیکن غاصب صیہونی اس بار ان خطرات کو خوف و وحشت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں تو اس کا سبب کیا ہوسکتا ہے؟

بلا شبہ فلسطینی قیدیوں کی ہڑتال کا سامنا کرنے والی غاصب اسرائیلی حکومت کیلئے یہ اتفاق پہلی بار نہیں ہے غاصب صیہونی فلسطینی تحریک کو ظلم و تشدد کے ساتھ کچلتے رہے ہیں، فلسطینی عوام پر گولہ باری، ان کے رہائشی علاقوں کو منہدم کرتے ہوئے نیز فلسطینی عوام پر ممکنہ تمام حربے آزماتے ہوئے اپنی مشکلات کے حل کی تلاش میں ہوا کرتا تھا لیکن اس مرتبہ یہ انتفاضہ معمولی نہیں ہے کیونکہ اس دفعہ انتفاضہ مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پر گزشتہ تمام مواقع کی نسبت نمایاں اور منفرد ہے۔

اس انتفاضہ میں، بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر فلسطینی قیدیوں کے حقوق کا جائز ہونا اور فلسطینی عوام نیز فلسطینی تحریک سے جڑے میڈیا چینلز کی بھر پور حمایت کا حاصل ہونا۔

اس انتفاضہ کے دائرہ عمل کا وسیع ہونا کیونکہ مقبوضہ فلسطین کی اکثر جیلوں میں قیدیوں نے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے اور یہ دائرہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی رہے گا۔

قیدیوں کا پرامن ہونا، کیونکہ قیدیوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کی دھمکی دینے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے وہ تو پہلے سے ہی قیدی ہیں اور پہلے سے ہی غاصب اسرائیل کی اذیتوں کو برداشت کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔

اسی طرح قیدیوں کے قتل کا بھی کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ قیدیوں کی موت اسرائیل کیلئے بھیانک بھول ثابت ہوگی جس کے نتیجے اور دھمکی سے غاصب صیہونی محفوظ نہیں رہ سکیں گے کیونکہ غاصب حکمران یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکیں گے کہ مرنے والا مسلح تھا یا اس کے پاس چاقو یا دیگر اسلحہ موجود تھا یا کسی گاڑی پر سوار ہوکر کسی اسرائیلی کو کچلنے کا ارادہ کئے ہوئے تھا، لہٰذا غاصب صیہونیوں کے پاس قیدیوں کے قتل کا کوئی بہانہ موجود ہی نہیں ہے۔

دوسری طرف غاصب اسرائیل حزب اللہ لبنان کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت اور جنگی فنون میں مہارت اور جدید ہتھیاروں سے گھبرایا ہوا ہے۔

حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف تمام جنگوں میں اپنی عسکری ہیبت اور جدید ہتھیاروں کے کامیاب استعمال سے یہ بات ثابت کر دیا کہ اس کی طاقت اور قدرت جاری و ساری ہے اور جنگی میدان میں قابل اجراء بھی ہے۔

ان حالات نے غاصب صیہونیوں کو اپنے طریقہ کار بدلنے پر مجبور کر دیا ہے، غاصب صیہونی حکومت حملہ آور پوزیشن کو چھوڑ دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے اور اپنے اندرونی حالات کو سدھارتے ہوئے مقبوضہ فلسطین کی حدود کو حزب اللہ کے میزائل حملوں سے محفوظ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

صیہونیوں کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ مستقبل میں ہونے والی جنگ مقبوضہ سرزمین کی حدود میں ہوگی۔ خوفزدہ اسرائیل کے خدشات اس بات سے بھی بڑھ گئے ہیں کہ حزب اللہ نے شمالی فلسطین سے ملنے والی لبنانی سرحدوں پر صحافیوں کو بلاکر یہ پیغام دیدیا ہے کہ اس کے پاس سرحد پر، نیز مقبوضہ فلسطین میں ہونے والی دشمن کی تمام حرکت و سکنات کا علم ہے نیز لبنان کے خلاف غاصب صیہونیوں کے ذریعے چھیڑی جانی والی کسی بھی جنگ کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے تیار ہے۔

حزب اللہ دشمن جانب سے غافل کردینی والی جنگ اور اپنے اسلحوں کی حفاظت کیلئے ہمیشہ آمادہ ہے۔ 

فلسطینی قیدیوں کا انتفاضہ اور اس کے رد عمل جیسے صیہونی جیلوں سے باہر اس انتفاضہ کا وسیع پیمانہ پر پھیلنا، غزہ میں حماس کے جنگی یا میزائلی پلان، یا پھر فلسطین سے ملنے والی اپنی سرحدوں کے دفاع کا حزب اللہی اعلان کو غاصب صیہونی ایک سلسلے کی کڑی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔

اسرائیل کے خوف و ہراس اور اس علاقہ کے کشیدہ حالات کے مد نظر مندرجہ ذیل سوالات سامنے آتے ہیں۔

کیا اسرائیل بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کمیشن نیز قیدی اور نظر بندی کے قوانین کا احترام کرتے ہوئے فلسطینی قیدیوں کے مطالبات کو قبول کرے گا؟

مزاحمتی تحریکوں کو نابود کرنے کیلئے شام میں دہشت گرد تنظیموں کی آشکار حمایت کرنے والا نیز ایران کے جوہری پروگرام اور حزب اللہ کی عسکری طاقت کو بہانہ بنا کر لبنان، ایران اور حزب اللہ سے کشیدگی پیدا کرنے والا اسرائیل، کیا اس کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کرے گا؟

کیا غاصب صیہونی قیدیوں پر مزید تشدد کرتے ہوئے ان کے گھر والوں سے ان کی ملاقات کا سلسلہ روک کر، اس انتفاضہ کو کچلنے کیلئے اقدامات کرے گا؟ یا اس سے بھی بڑھ کر امریکہ کی حمایت سے ماضی سے دو قدم آگے بڑھ کر فوجی کارروائی کی حماقت کرے گا؟ اور اس علاقے کو ایک بار پھر جنگ کی آگ میں جھونک دے گا؟

آنے والے دن ہی ان سوالات کا صحیح جواب دے سکتے ہیں۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری