پاک افغان تعلقات بحال کرنے کی ایک اور کوشش / پاکستانی وفد کی افغان صدر سے ملاقات


پاک افغان تعلقات بحال کرنے کی ایک اور کوشش / پاکستانی وفد کی افغان صدر سے ملاقات

پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں مختلف پارلیمانی جماعتوں کے قانون سازوں پر مشتمل وفد نے افغان صدر اشرف غنی، سابق افغان صدر حامد کرزئی کے علاوہ افغان قانون سازوں سے بھی ملاقاتیں کیں۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق پاکستان کے اپنے مغربی پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات گزشتہ ایک برس سے تناؤ کا شکار ہیں اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں سے ماحول خاصا کشیدہ چلا آ رہا ہے۔

لیکن حالیہ ہفتوں میں کشیدہ تعلقات کے باوجود بھی اعلیٰ سطحی رابطوں کے علاوہ غیر سرکاری وفود کے تبادلوں سے تعلقات میں بہتری کی توقع پیدا ہوئی ہے۔

اسی تناظر میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں مختلف پارلیمانی جماعتوں کے قانون سازوں پر مشتمل وفد نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی کے علاوہ افغان قانون سازوں سے بھی ملاقاتیں کیں۔

اتوار کو اس وفد نے سابق افغان صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی جن کے دور میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کا عنصر ہی غالب رہا ہے۔

اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیلوال نے ٹوئٹر پر پاکستانی وفد کی ان ملاقاتوں کا مختصر احوال بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد افغانستان کے تحفظات اور تاثرات کے تناظر میں دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی راہ تلاش کرنا ہے۔

ان کے بقول حالیہ برسوں میں اس نوعیت کا یہ پہلا پاکستانی وفد ہے جو افغانستان آیا ہے۔

کابل پہنچنے پر اسپیکر ایاز صادق نے پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ملک افغانستان میں امن و استحکام کے عزم پر قائم ہے اور دوطرفہ تعمیری روابط کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کی رکن شیری رحمٰن کے خیال میں قانون سازوں کے درمیان رابطے دوطرفہ تعلقات میں بہتری کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

امریکہ میں پاکستان کی سفیر رہنے والی شیری رحمٰن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تعلقات میں بہتری کے لیے راہ تلاش کیا جانا بہت ضروری ہے۔

جغرافیہ آپ تبدیل نہیں کر سکتے لیکن تاریخ، ماضی اور حال پر تو بات کر سکتے ہیں اور اپنا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔۔۔بہتری ضرور ڈھونڈنی چاہیے اور پارلیمانی وفود ایسے حالات میں سب سے بہتر ہوتے ہیں کیونکہ دو ممالک کی پارلیمان جو ہوتی ہے ان میں اعتدال ہوتا ہے وہ ٹھنڈے دماغ سے کوئی لائحہ عمل بنا سکتے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں افغانستان کے قانون سازوں کے علاوہ صحافیوں کے وفود بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں جب کہ گزشتہ جمعرات کو پاکستانی فوج کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی سربراہی میں ایک وفد نے کابل میں عسکری عہدیداروں سے ملاقاتیں کی تھیں اور ان کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان کی سرزمین کبھی افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

اسی طرح گزشتہ ماہ کے وسط میں پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور افغان قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کے درمیان برطانیہ کی سہولت کاری سے لندن میں ملاقات ہوئی تھی جس میں دوطرفہ تعاون کا طریقہ کار وضع کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا تھا۔

افغان امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ دونوں جانب تلخی اب بھی موجود ہے لیکن حالیہ روابط اور بعض اقدام کی باعث الزامات میں کمی واقع ہوئی ہے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری