ایران میں انتخابات؛ ایک جائزہ (پہلی قسط)


ایران میں انتخابات؛ ایک جائزہ (پہلی قسط)

اسلامی انقلاب کے فورا بعد جب اس انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی رح کی طرف سے ریفرنڈم اور انتخابات کی باتیں ہونے لگیں تو عالمی سیاسی نظاموں کے نظریہ پرداز اور پالیسی ساز اسے دیوانے کی بڑ قرار دینے لگے۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں 19 مئی کو صدارتی انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ اس مناسبت سے تسنیم نیوز ایجنسی کیلئے ڈاکٹر آر اے سید کے مضامین کا سلسلہ وار کالم پیش خدمت ہے۔ کوشش کی جائیگی کہ انتخابات کے انعقاد تک یہ سلسلہ جاری رہے اور امید ہے یہ ہمارے قارئین کی توقعات پر پورا اترے گا۔

1979 میں جب اسلامی انقلاب ایران میں کامیاب و کامران ہوا تو دنیا کے مختلف نظریہ پردازوں نے اسے ایک جذباتی ردعمل قرار دے کر اسے ایک حکومتی نظام قبول کرنے پر آمادگی کا اظہار نہیں کیا۔ سب یہ تصور کررہے تھے کہ مختصر عرصے کے بعد یہ انقلاب ختم ہوجائیگا، مشرق اور مغرب کی دو طاقتوں میں سے ایک اسے اپنے حصار میں لے لے گی اور یہ انقلاب اور حکومتی تبدیلی بھی امریکہ یا سویت یونین کی گود میں پناہ لے لے گی۔

اسلامی انقلاب کے فورا بعد جب اس انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی رہ کی طرف سے ریفرنڈم اور انتخابات کی باتیں ہونے لگیں تو عالمی سیاسی نظاموں کے نظریہ پرداز اور پالیسی ساز اسے دیوانے کی بڑ قرار دینے لگے۔

ان کی نظر میں اسلام اور جمہوریت کا کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔ وہ ایران کے اس انقلاب کو ایک اسلامی ڈکٹیٹرشپ کی عینک سے دیکھ رہے تھے یہاں تک کہ جب امام خمینی نے ایران کا آئینی نام تجویز کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ "ایران کا آئینی نام اسلامی جمہوریہ ایران ہوگا نہ اس سے کم اور نہ زیادہ"، تو بہت سے تجزیہ کار اسے ظاہری مفہوم کے تناظر میں دیکھ رہے تھے۔

امام خمینی کے حکم پر طرز حکومت اور آئین کی تیاری کیلئے جب ریفرنڈم کا اعلان ہوا تو بہت سی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

آج ایران کے اسلامی انقلاب کو تین عشروں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس عرصے میں 32 سے 34 مختلف سطوح کے انتخابات منعقد ہوچکے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جنگ کے دوران اور صدام کی طرف سے ایرانی شہروں پر داغے گئے میزائلوں کی بارش میں بھی ایران میں انتخابات کا عمل جاری رہا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی تشکیل ریفرنڈم کی بنیاد پر ہوئی لہذا ایران میں تمام حکام کو بلاواسطہ یا بلواسطہ طور پر عوامی ووٹروں کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔

دینی جمہوری نظام میں عوام کے فیصلے کو خاص اہمیت حاصل ہے اور عوام کا فیصلہ اور ارادہ ہی اسلامی جمہوریہ کے اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ اور اس کے تسلسل کا ذریعہ ہے۔ اسلامی نظام میں عوام انتخاب اور فیصلہ کرتے ہیں اور عوام ہی اپنے منتخب کردہ افراد کے ذریعے ملک کے امور چلاتے ہیں۔ اسلامی نظام میں عوام کے کردار کے پیش نظر دنیا والوں کی توجہ مختلف انتخابات میں عوام کی شرکت کی جانب مبذول رہی ہے۔

رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مطابق تمام عوام، امیدواروں، حکومت اور الیکشن کمیشن کے حکام کو انتخابات کی قدر کرنی چاہئے کیونکہ شوق و جذبے کے ساتھ وسیع پیمانے پر ہونے والے شفاف اور پرامن انتخابات کا انعقاد اسلامی جمہوری نظام کیلئے ایک ذخیرہ ہے اور ان سے اس نظام کو بہت تحفظ ملے گا۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت سے جہاں بین الاقوامی نظام میں ایران کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے وہیں عوام میں بھی اسلامی جمہوری نظام کی مقبولیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مختلف انتخابات منجملہ آئندہ ہونے والے صدارتی اور بلدیاتی انتخابات ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں عوام کی طاقت کا مظاہرہ ہیں۔ انتخابات ملک کے سیاسی میدان میں عوام کی حقیقی اور واقعی شرکت کا میدان ہیں۔

آئین کے مطابق ایران میں 4 طرح کے انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ ایرانی عوام آئین کے دائرہ کار میں مجلس خبرگان رہبری یا ماہرین کی کونسل کیلئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ عوام مجلس شورائے اسلامی یعنی پارلیمنٹ کے اراکین کو بھی منتخب کرتے ہیں تاکہ وہ آئین نظام کی جنرل پالیسیوں کے دائرہ کار میں ملکی قوانین مدون کریں۔

تیسری قسم کے انتخابات زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور یہ صدارتی انتخابات ہیں۔ عوام ان انتخابات میں شرکت کرکے چار سال کیلئے صدر کا انتخاب کرتے ہیں جو انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے اور چوتھی قسم کے انتخابات بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں۔ دو ہفتوں سے بھی کم مدت میں ایران میں بارہویں صدارتی اور پانچویں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری