پاکستان ریاض میں ہونے والے آئندہ وزرائے دفاع کے اجلاس میں حتمی تجاویز پیش کرے گا


پاکستان ریاض میں ہونے والے آئندہ وزرائے دفاع کے اجلاس میں حتمی تجاویز پیش کرے گا

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اسلام آباد، ایران اور سعودیہ عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرےگا، فوجی اتحاد اگر ایران کیخلاف ہوا تو ریاض کے ساتھ کئی دہائیوں سے جاری قریبی تعلقات کے باوجود پاکستان اس فوجی اتحاد سے علیحدہ ہو جائے گا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق پاکستان نے سعودی فوجی اتحاد کا حصہ بننے کے لیے آخری حد کا تعین کردیا۔

پاکستان نے سعودی فوجی اتحاد میں باضابطہ طور پر شمولیت کے لیے نئی شرائط سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پاکستان کی طرف سے اِس فوجی اتحاد کو الوداع کہنے پر کسی کو منفی اقدام کا تاثر نہ ملے اور پاکستان کے ہمسایہ اسلامی ملک ایران کے ساتھ تعلقات پر بھی کوئی آنچ نہ آئے۔

41 رکنی ممالک کے بنائے گئے سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کے بارے میں پاکستان کی طرف سے اہم ردعمل سامنے آیاہے جس میں پاکستان کا اسی حوالے سے موقف بھی واضح ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے گا اور پاکستان یہ تجویز بھی دے چکا ہے کہ اس اتحاد میں ایران کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ تاہم تمام کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی ہیں جب تک سعودی عرب اور ایران کے درمیان علاقائی جھگڑے بالخصوص خلیجی ممالک میں جاری جنگ ختم نہ ہو جائے۔ جبکہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کو یہ مشورہ دے چکی ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جھگڑے میں پاکستان کا کردار غیر جانبدار رہنا چاہیے۔

حکام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کئی دہائیوں سے جاری قریبی تعلقات کے باوجود پاکستان اس فوجی اتحاد سے علیحدہ ہو جائے گا۔

سعودی فوجی اتحاد کے بارے میں ایک اعلیٰ پاکستانی عہدیدار نے انگریزی خبر رساں ادارے "ایکسپریس ٹریبیون" سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان ریاض میں ہونے والی آئندہ وزرائے دفاع کے اجلاس میں اپنی حتمی تجاویز پیش کرے گا۔

اس اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ سعودی فوجی اتحاد کا واضح مقصد بتایا جائے کہ آیا یہ صرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہےیا اسلامی جمہوریہ ایران کیخلاف؟ اگر اس مقصد سے ہٹ کر یہ اتحاد بنایا جا رہا ہے تو ایک طرف اِس اتحاد کی تشکیل پر انگلیاں اْٹھیں گی اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں مزید دوریاں پیدا ہونگی۔

اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ " ہمارا اس حوالے سے نقطہ نظر بالکل واضح ہے اور حکومت اپنے موقف پر قائم ہے"۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کا بھی اس حوالے سے یہ کہنا تھا کہ پاکستان نے ابھی سعودی اتحاد میں شمولیت کا حتمی فیصلہ کرنا ہے اور اس اتحاد میں شمولیت ٹی او آرز فائنل ہونے کے بعد کیا جائے گا جو کہ ابھی تک سعودی عرب اور اس اتحاد کے دیگر رکن ممالک نے فائنل نہیں کیے ہیں اور سعودی اتحاد کے ٹی او آرز سامنے آنے کے بعد اتحاد میں شمولیت کے بارے میں پاکستان فیصلہ کرے گا۔

نفیس ذکریا کا مزید کہنا تھا کہ کسی کو اِس حوالے سے مفروضات پر بات نہیں کرنی چاہیے،حکومت پاکستان اس فوجی اتحاد کے بارے میں پہلے ہی عوام کو مطلع کو چکی ہے کہ اگر یہ اتحاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے علاوہ دیگر مقاصد جن میں ایران کو نشانہ بنانا بھی ہے ایسی صورت میں اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے۔

واضح رہے کہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف بھی اس حوالے سے قومی اسمبلی میں بیان دے چکے ہیں کہ پاکستان فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشکیل پانے والے اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا۔ اس سے قبل سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کرنے سے پہلے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اس اتحاد کی سربراہی صرف اس صورت میں کریں گے یہ صرف دہشتگردی کے خلاف ہو ناکہ کسی مخصوص اسلامی ملک کے خلاف۔

یاد رہے کہ پاکستان اس فوجی اتحاد میں شمولیت کے بارے میں اس وقت سوچنے پر مجبور ہوا جب ریاض میں گزشتہ دنوں ہونے والی امریکہ سعودی عرب کانفرنس کے دوران سعودی حکام نے بیانات جاری کیے کہ یہ اتحاد ایران کا مقابلہ کرنے اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہےجبکہ حکام نے یہ واضح کر کے بتایا کہ سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کے لیے رہنما اصول یعنی ٹی او آرز اس اتحاد میں شمولیت اختیار کرنے والے ممالک کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں طے کیے جائیں گے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری