داعش؛ ابتداء اور نظریاتی بنیادیں (دوسرا حصہ)


داعش؛ ابتداء اور نظریاتی بنیادیں (دوسرا حصہ)

داعش میں صدام حسین کی آرمی کے کئی فوجی اور پولیس بشمول اس کی خفیہ پولیس کے اہلکار بھی شامل ہوگئے تھے۔ یہ شمولیت امریکہ کی طرف سے 2003 میں عراق پر حملے کے بعد ہوئی۔ کچھ اندازوں کے مطابق 30 فیصد سینئر داعش ملٹری کمانڈرز عراقی اور پولیس کے آفیسرز ہیں۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: 2010 میں ابو عمر البغدادی کے مرنے کے بعد ابوبکر البغدادی نے اس کی جگہ لے لی۔ 2011-12 کے دوران داعش نے جنوبی عراق اور کرد علاقوں تک وسعت حاصل کر لی۔

شام کی خانہ جنگی نے اسلامک اسٹیٹ کو شام تک وسعت دینے میں مدد فراہم کی۔ 2011 کے وسط میں اسلامک اسٹیٹ کی شام میں مقیم لیڈرشپ نے "جبہۃ النصرۃ" کی تشکیل کیلئے مقامی عسکریت پسند گروپوں سے تعاون کرنا شروع کر دیا۔ النصرہ نے 2012 میں عوامی پہچان بنائی۔

اپریل2013 میں ابوبکر البغدادی نے ایک دفعہ پھر نام تبدیل کرتے ہوئے اسے "اسلامک اسٹیٹ عراق و شام" (دولت اسلامی عراق و شام) بنا دیا۔

ابوبکر البغدادی اپنے منصوبے کے تحت آگے بڑھا، بالآخر جون 2014 میں ایک آڈیو ریکاڈنگ جاری کی گئی جس میں ابوبکر البغدادی کی امارت میں خلافت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان کے بعد مغرب سے 4 ہزار افراد اپنے گھر چھوڑ کر اسلامک اسٹیٹ جا پہنچے جو مغرب میں بسنے والے 47 ملین سے زائد مسلمانوں کے مقابلے میں بہت تھوڑی تعداد ہے۔

ماہر کریمنالوجی "Simon Cottee" کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کی طرف جانیوالے مغربی لوگوں کی نفسیات سے واضح ہوتا ہے کہ "امنگوں سے بھر پور سوچ کی طاقت اور خواہش کیسے عقل پر غالب آسکتی ہے"۔

انسداد دہشتگردی کے ماہر"Levitt Matthew" اتفاق کرتے ہیں کہ "کئی لوگوں کیلئے جو شناخت اور مقصد کے مضبوط احساس کی کمی سے دوچار ہوتے ہیں،کو عالمی انقلاب پر تشدد بیانیہ جوابات اور حل مہیا کرتا ہے: یہ ان لوگوں کی لیے بہت طاقتور پیغام ہو سکتا ہے جو جوابات تلاش کر رہے ہوں"۔ اکثر افراد جن کی شناخت داعش کے لیے لڑنے والوں کے طور پر ہوئی ان کی ابتدائی زندگی تکالیف اور مسائل سے بھری ہوئی تھی۔ کئی ایسے تھے جن کے والدین نہیں تھے یا وہ گھر میں بدسلوکی کا شکار تھے۔ نوجوان ہمیشہ کسی رول ماڈل کی تلاش میں ہوتے ہیں، ابوبکر البغدادی کی شکل میں انہیں ایک طاقتور پیشوا نظر آیا جس کا ذکر دنیا بھر میں ہو رہا تھا اور وہ توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اسی طرح بہت سارے نوجوان ایڈوینچرازم کا شکار ہو کر مختلف جرائم پیشہ گروہوں کا حصہ بن جاتے ہیں اور پرتشدد جرائم کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔

اس گروپ میں صدام حسین کی آرمی کے کئی فوجی اور پولیس بشمول اس کی خفیہ پولیس کے اہلکار بھی شامل ہوگئے تھے۔ یہ شمولیت امریکہ کی طرف سے 2003 میں عراق پر حملے کے بعد ہوئی۔ کچھ اندازوں کے مطابق 30 فیصد سینئر داعش ملٹری کمانڈرز عراقی اور پولیس کے آفیسرز ہیں۔ ابو عمر زرقاوی بھی عراقی آرمی کا سابق آفیسر تھا، جس نے سابق بعث حکومت کے اہلکاروں کو ملیشیا میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ اسلامک اسٹیٹ گروپ کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور تکنیک بالکل وہی نظر آتی ہے جو صدام حکومت کی خفیہ پولیس والوں کی تھی۔

داعش کے نظریہ کو جابرانہ نقطہ نظر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ داعش نے تسلیم شدہ اسکالرز کی تحقیق سے مستفید ہونے کی بجائے اپنے عالمانہ حکام بنائے، جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ داعش کا نظریہ تین جدید دستاویزات سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ ان تینوں میں سے زیادہ معروف ابوبکر النجی کی 2000 کے اوائل میں لکھی گئی کتاب "بربریت کا انتظام" ہے۔ یہ دستاویز اسلامک اسٹیٹ کی تشکیل کے لیے اسٹریٹجک روڈ مپ کی حیثیت رکھتی ہے جو ماضی کی عسکریت پسندوں کی کوششوں سے الگ و منفرد ہے۔

داعش کے نظریات اردنی عسکریت پسند ابو مصعب زرقاوی کے نظریات سے اخذ کیے گئے ہیں خاص طور پر اس کی تکفیری سوچ سے داعش بہت متاثر ہوئی۔ داعش کا دعویٰ ہے کہ جو ان کی خلافت کو مسترد کریں گے وہ خود بخود مرتد ہو جائیںگے (اور داعش کے لوگوں کے لیے مرتدین کو مارنے میں کوئی امر مانع نہیں)۔

داعش کے نظریہ کا ایک اور اہم حصہ تمام مسلمانوں کو جہاد میں شمولیت کےلیے بلانا ہے۔ یہ نقطہ نظر جہاد کے فرض ہونے کی مخصوص اور غلط تشریح سے ابھرتا ہے۔ داعش جنگجوؤں کی غیر مسلموں کو بندوق کے زور پر زبردستی مسلمان بنانے کی بہت سی رپوٹس ہیں۔ داعش نے قرون وسطیٰ کی غلامی کو دوبارہ متعارف کروانے کی کوشش کی۔

انہوں نے عراق کے یزیدی اور مسیحی اقلیت کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا (جسے اب وہ موصل میں عراقی اور اتحادی افواج کی گولہ باری سے بچنے کے لیے بطور ڈھال استعمال کر رہے ہیں)۔

داعش عراق میں بعث حکومت کے ظلم وجبر اور خوف وہراس پھیلانے کے ماڈل کی وارث ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری