خوف کے سائے میں برطانوی عام انتخابات
دہشتگردی کے خوف میں گھری ہوئی برطانیہ کی عوام نئی حکومت کے قیام کے لیے اپنی رائے دہی کا استعمال خوف کے سائے میں کریں گے۔
برطانیہ کا شمار بھی یورپ کے ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے جہاں دہشتگردی کے عفریت نے اپنے پنجے جما رکھے ہیں بلکہ اگر برطانیہ کو یورپی ممالک میں دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔
مانچسٹر سے لندن تک برطانیہ میں آئے روز دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ہرچند دہشتگرد کارروائیوں کی نوعیت ایشیائی ممالک میں پیش آنے والے دہشتگرد حملوں سے قدرے مختلف ہوتی ہے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج عموما یورپی باشندے اور خصوصا برطانوی شہری ایک انجانے خوف اور مسلسل بےیقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔
خیال رہے کہ پولنگ کا آغاز برطانوی وقت کے مطابق صبح سات بجے ہوا اور رات دس بجے تک پولنگ جاری رہے گی۔
پورے ملک میں اس کے لیے 40 ہزار پولنگ مراکز قام کیے گئے ہیں۔
کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لئے پورے ملک میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔
سیاسی ماہرین کی جانب سے یہ تجزیہ بھی سامنے آیا ہے کہ برطانیہ میں بدامنی کی حالیہ لہر کے باعث اس بار ووٹروں کے ٹرن آوٹ میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئے گی یا کم از کم اس بار ووٹر اپنا حق رائے دہی کا استعمال ڈاک کے ذریعے کریں گے۔
بعض ووٹر ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ پہلے ہی ڈال چکے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ عام انتخاب میں 16 فیصد سے بھی زیادہ لوگوں نے ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ ڈالا تھا۔
واضح رہے کہ اس بار تقریباً چار کروڑ 69 لاکھ افراد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جو ووٹ ڈالیں گے۔
جبکہ 2015 کے عام انتخاب میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد چار کروڑ 64 لاکھ تھی۔
آج ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر کنزرویٹیو پارٹی اور لیبر پارٹی کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔
کسی ایک سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل کرنے کے لیے کم از کم 326 سیٹیں جیتنا ضروری ہیں۔
بہرکیف انتخابات میں جیت کسی بھی فریق کا مقدر بنے، برطانوی عوام کی خواہش ہے کہ ہار دہشتگردی کی ہو۔