عید رے عید ۔۔۔ غربت، ڈیپریشن، خودکشیاں

عید رے عید ۔۔۔ غربت، ڈیپریشن، خودکشیاں

عید جہاں بیشتر افراد کے لئے خوشیوں کا پیغام لاتی ہے وہیں بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی محرومیوں کے زخم عید کے قریب ہرے ہو جاتے ہیں اور نتیجتا ڈیپریشن کا شکار ہو کر وہ خود ہی اپنی زندگی کا خا تمہ کر لیتے ہیں۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق عید کا لفظ سنتے ہی چہرے کھل اٹھتے ہیں اور لبوں پر ایک مسکان سی دوڑ جاتی ہے۔

تاہم عید جہاں بیشتر افراد کے لئے خوشیوں کا پیغام لاتی ہے وہیں بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی محرومیوں کے زخم عید کے قریب ہرے ہو جاتے ہیں اور غربت کے باعث وہ ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

حتی کہ یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی افراد عید سے چند روز قبل ڈیپریشن کا شکار ہو کر اپنی زندگی کا خا تمہ تک کر لیتے ہیں۔

ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ اٹک کے علاقے حضرو میں پیش آیا جہاں  غربت سےتنگ ماں بچوں کو عید پر نئے کپڑے نہیں دلوا سکتی تھی۔

مذکورہ خاتون نے بچوں کی جانب سے عید کے کپڑوں کا تقاضہ کرنے پر تین بچوں سمیت 30 فٹ گہرے کنویں پر چھلانگ لگادی جس کے نتیجےمیں دو بچےجاں بحق ہوگئے۔

ریسکیو حکام کے پہنچنے تک چار سالہ مزمل اور ڈیڑھ سال کی مقدس جاں بحق ہوچکی تھیں تاہم ماں اور ایک بچے کو بچا لیا گیا جبکہ دونوں ماں اور بیٹے کو اسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں ان کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی جارہی ہے۔

ایک اور واقعے میں چھٹیوں کی وجہ سے تنخواہ کٹنے پر راولپنڈی کے سرکاری ہسپتال کے سینٹری ورکر فیصل نے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرلی۔

لواحقین کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کی موت کے ذمہ داران کیخلاف سخت ترین کارروائی کی جائے کیونکہ افسران نے اپنے رویے سے فیصل کو خود کشی پر مجبور کیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے معاشرے کا توازن اساسوں کی غیرمساوی تقسیم کے باعث بالکل بگڑ کر رہ گیا ہے، اس میں بھی کوئی شائبہ نہیں کہ زکوۃ اور خیرات اصل مستحقین تک نہ پہنچنے کے سبب لوگ بہت سی مشکلات کا شکار ہیں۔

تاہم رمضان المبارک میں رکھے گئے روزے اور کی گئی عبادات کی خوشیوں میں منائی جانے والی عید کو نئے کپڑوں سے لازم و ملزوم قرار دینے کا جرم کس کے کھاتے میں جاتا ہے؟؟

ہمارا معاشرہ؟ علماء کرام؟ میڈیا؟ یا اسلام سے دوری؟؟

ہمارے معاشرے میں، آج کل افطاری کے بعد گھر سے نکل کر دیکھیں تو بازار سینکڑوں نہیں ہزاروں لاکھوں لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔

گھر کے ہر فرد کو نئے کپڑے، نئے جوتے چاہیئں، لیکن آخر کیوں؟؟ رمضان المبارک میں رکھے گئے روزے اور کی گئی عبادات کی خوشیوں میں منائی جانے والی عید میں نئے کپڑے اور جوتے کیوں لازم ہیں؟

انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے علماء کرام اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔

مساجد اور میڈیا کے ذریعے وہ عید کی روح کا شعور عوام میں اجاگر نہیں کر پاتے ہیں۔ نتیجتا بیشتر عوام کی عید کی خوشیاں نئے کپڑوں، جوتوں اور مہندی لگانے میں کھو کر رہ جاتی ہے۔

اگر میڈیا کی بات کی جائے تو جیسے جیسے رمضان المبارک کے دن گزرتے جاتے ہیں، وہ خود ایک دکان بن کے رہ جاتا ہے۔ طرح طرح کے برانڈز کی ترویج اس قدر زور و شور سے ہوتی ہے کہ محسوس ہوتا کہ نئی چیزوں کی خریداری کے بنا عید کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔

اگر تاریخ کے صفحات پلٹے جائیں تو معلوم ہوگا کہ عید پر اہل بیت علیہم السلام اور اصحاب کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی توجہ خریداری پر ہوتی تھی کہ اللہ کے شکرانے پر۔

لیکن اتنی زحمت اٹھائے کون؟

ان کا ذکر کون پڑھے جن کی شب عید شکرانے کے سجدوں میں گزرا کرتی تھی۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ امت مسلمہ آج اسلام کی روح سے اس قدر دور ہو چکی ہے کہ ان کو یقین ہو چلا ہے کہ نئے کپڑوں کی خریداری کے بنا انہوں نے عید منائی ہی نہیں ہے اور مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ آج کل کے والدین اپنے بچوں کو عید کی حقیقی روح سمجھانے کے بجائے ان کو لے کر خودکشیاں کر رہے ہیں جو بذات خود ایک گناہ کبیرہ ہے۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری