ڈاکٹر ولی خان مظفر کی معذرت؛ حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں کالم لکھ ڈالا


ڈاکٹر ولی خان مظفر کی معذرت؛ حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں کالم لکھ ڈالا

ڈاکٹر ولی خان مظفر نے شہادتِ امام علی علیہ السلام پر شائع ہونے والے اپنے متنازعہ کالم پر اپنی وضاحت پیش کی ہے، جو یقینا معقول بھی ہے اور قابلِ تعریف بھی۔ اِس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے احتجاج اور تنقید کے بعد نہ صرف اُنہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ معذرت بھی کی ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: ڈاکٹر ولی خان مظفر نے شہادتِ امام علی علیہ السلام پر شائع ہونے والے اپنے متنازعہ کالم پر اپنی وضاحت پیش کی ہے، جو یقینا معقول بھی ہے اور قابلِ تعریف بھی۔ اِس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے احتجاج اور تنقید کے بعد نہ صرف اُنہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ معذرت بھی کی ہے۔

ڈاکٹر شیخ ولی خان المظفر اپنے تازہ کالم میں رقمطراز ہیں؛

"حضرتِ علی کے دربار میں"

حضرت سیدنا علی بن ابی طالب کرّم الله وجھہ خلافت میں چہارم ہیں لیکن تمام صحابۂ کرام پر مناقب میں متقدم ہیں، ابن عم الرسول (ص) ہیں،پوری امت اور الله ورسول کے محبوب ہیں، سیدۂ کائنات حضرت فاطمة الزھراء کے سر کے تاج ہیں، حضراتِ حسنین کریمین کے والدِ ماجد ہیں، آلِ بیت کے سر خیل ہیں،
آپ کی پیدائش پر آپ کی والده نے "حیدر" نام رکھا جس کے معنی شیر کے آتے ہیں، آپ نے اپنے اس نام "حیدر" کا ذکر غزوہ خیبر میں خاص طور پر اس وقت فرمایا جب خیبر کا یہودی سردار "مرحب" بڑی شان و شوکت سے ہاتھ میں تلوار لہراتے مقابلہ کی دعوت دیتے اور یہ رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے نکلا تھا؛
قد علمت خَیْبَر أنی مرحب - شاکى السلاح بطل مجرب
خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں، اسلحہ پہنے ہوئے تجربہ کار بہادر ہوں۔

سیدنا علی رض نے اس کے جواب میں یہ رجزیہ شعر پڑھا تھا؛
أنا الذی سمتنی أمی حیدرة - کلیث غابات کریه المنظرة
میں وہ ہوں جس کی ماں نے اس کا نام حیدر رکھا ہے، میں کچھار کے شیر کی مانند ہیبت ناک ہوں۔

اور اس کے بعد حیدری ہاتھ نے مرحب کے سر پر ایسا وار کیا کہ تلوار خود کو کاٹتی ہوئی اس کے جبڑوں تک پہنچ گئی اور مرحب کا وجود ختم کرڈالا۔
 مرحب کا کیا جس نے کام تمام

ان حیدری ہاتھوں پہ لاکھوں سلام!

علیؓ خلیفہ راشد۔۔۔۔۔علیؓ خلیفہ چہارم۔۔۔۔۔۔علیؓ شیر خدا۔۔۔۔۔علیؓ فاتح خیبر۔۔۔۔۔علیؓ بت شکن۔۔۔۔۔۔علیؓ ہمزلف ذی النورین۔۔۔۔۔۔۔علیؓ شجاع و برتر۔۔۔۔۔۔علیؓ باب علم و فضل۔۔۔۔۔۔علیؓ منصف اول۔۔۔۔۔۔علیؓ مینارہ نور۔۔۔۔۔۔علیؓ غیظ بر کفروکفار۔۔۔۔۔۔۔علیؓ شمشیر بےنیام۔۔۔۔۔۔علیؓ زوج فاطمہؓ۔۔۔۔۔علیؓ پدر حسنؓ و حسینؓ۔۔۔۔علیؓ حامل سیف ذوالفقار۔۔۔علیؓ عالم باعمل۔۔۔۔علیؓ فقیہ معتبر۔۔۔۔۔۔علیؓ بزرگ و برتر۔۔۔۔۔۔۔علیؓ استعارہ تقویٰ و عدل۔۔۔۔۔۔۔علیؓ معین و مددگارِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انور ۔۔۔۔۔۔۔علیؓ نشان حق و صداقت۔۔۔۔۔علیؓ  اساس سلاسل اولیاء۔۔۔۔۔۔۔علیؓ  قاھر ناصب و خوارج۔۔۔۔۔۔۔۔علیؓ مرشد ما۔۔۔۔علیؓ رہبر ما۔۔۔۔علیؓ مولائے ما۔۔۔۔علیؓ مقتدائے ما۔۔۔۔۔علیؓ باعث تسکین قلوبِ ما۔۔۔۔علیؓ اٰباء و اجداد سادات ۔۔۔۔ علیؓ فیصل نفاق و ایمان۔۔۔۔۔علیؓ امام صحابہ ؓ۔۔۔۔۔علیؓ سسر عمؓر۔۔۔علیؓ داماد رسولﷺ۔۔۔۔۔علیؓ مشیر بوبکرؓ و عمر و عثمانؓ۔۔۔۔۔

الغرض میرا ایمان و اتقان ہے مولا علیؓ
مومن کے دل کا چین و سرور ہے مولا علیؓ

علی بن ابی طالب (599ء –661ء) رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیداہوئے، ( 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل)۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے۔ علی، بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی۔ پیغمبر کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔ حضرت علی پہلے بچے تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریباً دس یا گیارہ سال تھی۔

جہاد سمیت اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کسی کام کے کرنے میں آپ کو انکار نہ تھا۔ یہ کام مختلف طرح کے تھے رسول اکرم کی طرف سے عہد ناموں کا لکھنا، خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا اور لکھے ہوئے اجزائے قرآن کے امانتدار بھی آپ تھے۔ ہجرت کے موقع پر آپ کی جگہ پے سوئے، مکہ والوں کی امانتیں آپ کے پاس رہیں، اس کے علاوہ یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ سارا یمن مسلمان ہو گیا۔

جب سورۂ براءت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ کے لیے بحکم خدا آپ ہی مقرر ہوئے اور آپ نے جا کر مشرکین کو سورۂ براءت کی آیتیں سنائیں۔ اس کے علاوہ رسالت مآب کی ہر خدمت انجام دینے پر تیار رہتے تھے- یہاں تک کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ رسول اکرم کی جوتیاں اپنے ہاتھ سے سی رہے ہیں۔ جسےعلی بن ابی طالب اپنے لیے باعثِ فخر و سعادت سمجھتے تھے۔

علی بن ابی طالب کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب علی بن ابی طالب کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ مثلا آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ الفاظ »علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔ کبھی یہ کہا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔,, کبھی یہ کہا »تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے۔ کبھی یہ کہا کہ علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ کبھی یہ کہا کہ علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔

کبھی یہ کہ وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں،, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت ِ فاطمہ وحسنین کریمین کو اپنی چادر میں لپیٹ کر فرمایا: یہ میرے اہل بیت ہیں۔ عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔

حضرتِ علی کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کفر ونفاق ہے، کوئی مسلمان اس کا سوچ بھی نہیں سکتا، میں ان دنوں مدینے میں معتکف ہوں، مجھے پتہ چلا کہ ہمارے ایک کالم (قرآنِ کریم کے تدریجی نزول کی حکمتیں) میں کچھ ایسی روایت بھی نادانستہ شامل ہوگئی ہے، جواہلِ تشیع کی تحقیق کے مطابق ضعیف ہے، ہمارے علم میں یہ بات پہلی مرتبہ آئی کہ اس روایت کے حوالے سے اہل تشیع کی الگ اور معقول تحقیق ہے، اس وقت ہم اس روایت کی تحقیق کے بجائے اس سے جن حضرات کی دل آزاری ہوئی ہے اُن سے تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں، حضرت علی کرم الله کے دربار میں نمناک آنکھوں کے ساتھ معافی کے خواست گار ہیں۔ ابھی اس وقت بھی صفہ کے سامنے بیتِ علی رض کی چوکھٹ پر سر رکھ کر معافی چاہتے ہیں۔ علامہ اقبال مرحوم کے اشعار گنگنا کر:

آدمی کام کا نہیں رہتا
عشق میں یہ بڑی خرابی ہے
لن ترانی میں طور سوزی میں
پردے پردے میں بے حجابی ہے

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری