امریکہ کا ڈومور مطالبہ جاری؛ پاکستان، افغانستان میں انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے مدد کرے


امریکہ کا ڈومور مطالبہ جاری؛ پاکستان، افغانستان میں انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے مدد کرے

15 سالوں سے افغانستان کے مظلوم عوام پر ڈرون سمیت بھاری ہتھیاروں اور خودکش دھماکوں کے ذریعے حملے اور متعدد بار اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے والے امریکہ نے اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے واشنگٹن کی مدد کرے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق دنیا بھر میں امن و سلامتی کا نام نہاد پرچم اٹھانے والے ام نہاد سپر پاور امریکہ جو ہمیشہ سے اپنی طاقت اور تکبر کا ڈنڈورا بھی پیٹتا رہتا ہے، نے ایک بار پھر کہا ہے کہ واشنگٹن کی افغانستان میں انتہاپسندی کیخلاف جیت پاکستان کی مدد پر منحصر ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران افغانستان سمیت کئی مسلمان ممالک میں فوجی مداخلت کرچکا ہے اور اس دعویٰ ہے کہ وہ مسلمان ممالک سے دہشتگردی کا خاتمہ کرکے وہاں امن قائم کریگا جبکہ امریکہ کے جھوٹے اور انتہاپسندی کی بنیاد پر قائم نظام نے ان ممالک کو پہلے سے زیادہ مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔

امریکی حکام کی حسب معمول کے مطابق بیانات کو جاری رکھتے ہوئے افغانستان کے دورے پر آئے سینیٹر جان مکین نے کہا ہے کہ افغانستان میں عسکریت پسندی اور بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے امریکا پاکستان کی مدد پر انحصار کیے ہوئے ہے۔

کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین جان مکین کا کہنا تھا کہ ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ افغانستان دہشت گرد تنظیموں اور حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے ہم پاکستان سے تعاون کی امید رکھتے ہیں۔

امریکی سینیٹر کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان اپنا رویہ نہیں بدلتا، تو شاید ہمیں پاکستانی قوم کی طرف اپنا رویہ بدلنا چاہیئے۔

واضح رہے کہ امریکی سینیٹر کا یہ بیان ان کی قیادت میں امریکی سینیٹرز کے وفد کے اسلام آباد دورے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے، جہاں پاکستانی حکام نے انہیں خطے کے استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

امریکی سینیٹرز کا دورہ اسلام آباد اور کابل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا کی جانب سے طالبان کا صفایا کرنے اور افغان فورسز کی حمایت کے لیے مزید فوجیوں کو بھیجے جانے کی تیاریاں جاری ہیں۔

جان مکین نے افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کے لیے فوجیوں کی تعداد سے زیادہ 'جیت کی حکمت عملی' پر زوردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دنیا کی سب سے مضبوط قوم کو اس تصادم کو جیتنا چاہیئے' جس کے لیے فوجی دباؤ کے ساتھ ساتھ سفارتی کوششوں کی بھی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ نیٹو افواج کے نام پر اس وقت 8400 امریکی فوجی افغانستان میں تعینات ہیں جبکہ 4000 مزید فوجیوں کو بھیجے جانے پر غور کیا جارہا ہے۔

امریکی سیکریٹری دفاع جیمس میٹس کا کہنا ہے کہ ان کی نئی حکمت عملی، جسے اس ماہ کے آخر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے پیش کیا جائے گا، وسیع 'علاقائی' اہمیت کی حامل ہوگی۔

دوسری جانب امریکی صدر نے افغانستان کے معاملے پر غیرمعمولی خاموشی اختیار کیے رکھی تھی، تاہم اس ماہ انہوں نے بالآخر جیمس میٹس کو افغانستان میں فوجیوں کی تعیناتی کا اختیار سونپ دیا۔

گذشتہ ہفتے کے دوران نیٹو کی جانب سے بھی افغانستان میں اپنی تعداد میں اضافے کا اعلان سامنے آیا تھا۔

خیال رہے کہ طالبان کی حالیہ کارروائیوں نے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے امریکی اعتماد کو متاثر کیا ہے جبکہ نیٹو افواج کے اضافے سے یہ خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ اتحادی فورسز دوبارہ ناقابل فتح جنگ میں الجھ جائیں گی۔

تاہم امریکی سیکریٹری دفاع اس حوالے سے کوئی 'ٹائم لائن' مقرر کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

گذشتہ ہفتے برسلز میں ان کا کہنا تھا کہ 'حرف آخر یہ ہے کہ نیٹو نے افغانستان کو خوف اور دہشت سے آزاد کرانے کا عہد کیا ہے، اسے نامکمل نہیں چھوڑا جاسکتا'۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری